tag:blogger.com,1999:blog-25668060196654899992024-02-21T08:09:16.280-08:00Badlav ki Dharaबदलाव की धारा
بدلاؤ کی دھاراBadlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.comBlogger74125tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-26868656670567336612019-01-30T04:17:00.004-08:002019-01-30T04:17:53.777-08:00طالبان دہشت گردی کے القاب سے بری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 dir="rtl" style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قطر میں طالبان- امریکہ کے بیچ 6 دنوں تک چلے طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے اور گزشتہ چند دنوں سے یہ خبر نیشنل - انٹرنیشنل سبھی طرح کے ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس معاہدے کے مسودے کے مطابق غیر ملکی افواج ایک مقررہ مدت کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی، طالبان افغانستان میں داعش یا القاعدہ جیسی تنظیموں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے، دونوں جنگی فریقوں کے بیچ قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ امریکہ اور طالبان دونوں نے معاہدے کے مسودے میں شامل ان نکات کی تصدیق کی ہے۔ مسودے میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان کو بلیک لسٹ سے ہٹا لیا جائے گا جس سے ان پر لگی سے سفری پابندیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
امریکہ اور طالبان کے بیچ ہوئی اس تازہ پیش رفت کو بھلے ہی حتمی معاہدے کی شکل اختیار کرنے میں ابھی وقت لگے لیکن اس کے اثرات ابھی سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ بھلے ہی طالبان کو ابھی بلیک لسٹ سے ہٹایا نہ گیا ہو اور یہ بات ابھی صرف مسودے کا حصہ ہو لیکن ایک آدھ استثنٰی کے ساتھ سبھی قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے طالبان کے ساتھ دہشت گرد، انتہا پسند، شدّت پسند جیسے الفاظ منسوب کرنا ابھی سے بند کر دیا ہے۔ جہاں بیشتر ذرائع نے طالبان کے ساتھ کوئی لاحقہ - سابقہ لگانے سے پرہیز کیا ہے تو وہیں کچھ چینلوں اور اخباروں نے اب اُنہیں دہشت گرد کے بجائے باغی، جنگجو یا لڑاکا لکھنا/کہنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی میڈیا کو تو چھوڑ دیجئے، ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے بھی مجموعی طور پر اپنی رپورٹوں میں طالبان کو دہشت گردی کے القاب سے بری کر دیا ہے۔ گرچہ قطر میں ہوئی اس تازہ پیش رفت کے بعد حکومتِ ہند کی وزارتِ خارجہ نے طالبان کے حوالے سے نہ تو خارجہ پالیسی کی وضاحت کی ہے اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان کے ساتھ ماسکو میں ہوئے مذاکرات میں ہندوستان نے غیر سرکاری طور پر حصہ لیا تھا۔ طالبان سے مذاکرات کی خبر پر اپوزیشن کے اعتراض کرنے کے بعد وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس وقت انتہائی مبھم بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ "ہندوستان افغانستان میں امن اور صلح کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔" مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ "ہم نے کب کہا کہ طالبان کے ساتھ بات ہوگی؟" مطلب بیک وقت اقرار بھی اور انکار بھی۔ حال ہی میں ہندوستان کے فوجی سربراہ جنرل ویپن روات نے بھی ایک بیان میں مرکزی حکومت پر طالبان سے مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا۔ ان بیانات سے لگتا ہے حکومتِ ہند طالبان اور افغانستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی پر تذبذب اور کشمکش کا شکار ہے۔ فی الوقت حکومتِ ہند نہ تو کھل کر طالبان سے بات۔چیت کر رہی ہے اور نہ ہی سابقہ پالیسی کی طرح دہشت گرد قرار دیتے ہوئے طالبان کو یکسر مسترد کر رہی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک بات تو صاف ہے افغانستان کے دیگر پڑوسی ملکوں کی طرح طالبان سے مذاکرات کرنا یا یوں کہیں کہ طالبان کو منظوری دینا ہندوستان کی بھی مجبوری ہے اور ماسکو مذاکرات میں حصہ لیکر ہندوستان اپنی منشا بھی واضح کر چکا ہے مگر چونکہ ملک میں پارلیمانی انتخابات قریب ہیں اس لیے ایسا لگتا ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی طالبان سے مذاکرات کرکے انتخابی خسارے سے حتٰی الامکان بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے میں بھلے ہی طالبان سے ہندوستان کے تعلقات کبھی ٹھیک نہ رہے ہوں، لیکن اُن سے فوری طور پر اور براہ راست مذاکرات شروع کرنا ملک کے دیرینہ مفادات کے لیے ضروری ہے۔ مذاکرات میں جتنی تاخیر ہو گی افغانستان میں ہندوستان کے مفادات کو اتنا ہی نقصان پہنچے گا، کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوگی اور اسی کے ساتھ اس تساہلی کی وجہ سے افغانستان سے بھی ہندوستان کا پتہ صاف ہو جائےگا۔</div>
<a href="https://www.facebook.com/ufi/reaction/profile/browser/?ft_ent_identifier=ZmVlZGJhY2s6MzAzMTc1OTczNjg0OTk4Nw%3D%3D&av=100000479724822"></a></div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-33888495888358174882018-07-31T04:33:00.003-07:002018-08-28T08:29:05.330-07:00आसाम के लाखों मुसलमानों को नरसंहार संकट का सामना!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">
इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<br />
<div style="text-align: justify;">
असम में 40 लाख लोगों को नागरिकता के अधिकार से वंचित कर दिया गया है... इनका नाम न तो NRC की पहली लिस्ट में था और ना ही दूसरी और फाइनल लिस्ट में है... मोदी सरकार का कहना है कि इन लोगों को अपनी नागरिकता साबित करने के लिए सितंबर तक, एक और मौक़ा दिया जाएगा, लेकिन सवाल ये उठता है कि ये 40 लाख लोग किसके सामने अपनी नागरिकता साबित करेंगे? क्या उन्हीं अधिकारियों के सामने जिन्होंने पहली और दूसरी लिस्ट में इन्हें देश का नागरिक मानने से इनकार कर दिया है? जब दो-दो बार ये अधिकारी इनकार कर चुके हैं तो तीसरी बार ये कैसे मान लेंगे? ख़ास बात यह है कि इन्हें बंगाली बोलने वाला मुसलमान बता कर बांग्लादेशी साबित करने की कोशिश की जा रही है जबकि हक़ीक़त यह है कि भाषा का कोई क्षेत्र नहीं होता... अगर आप बंगला बोलने की वजह से इन्हें बंगलादेशी कह रहे हैं तो फिर नेपाल के अंदर सरहदी इलाक़ों में हिंदी बोलने वाले लाखों नेपालियों को आप क्या कहेंगे? ऐसी बहुत सी मिसालें आपको देखने को मिल जाएंगी।</div>
<div style="text-align: justify;">
दरअसल, यह पूरा मामला सत्ता पर हर हाल में क़ब्ज़ा बरक़रार रखने का है। चूँकि आबादी के लिहाज़ से कश्मीर के बाद आसाम में मुसलमान सबसे ज़्यादा हैं... इसी बुनियाद पर वहां के मुसलमान अपनी राजनीतिक पार्टी (AIUDF) खड़ी करके मुख्य विपक्ष की भूमिका में आ गए थे... ऐसे में कांग्रेसियों और भाजपाइयों द्वारा असम की सत्ता पर कब्ज़ा करने की राह में यह मुसलमान कबाब में हड्डी बनने लगे थे... जिसके लिए ज़रूरी हो गया था कि यहाँ के मुसलमानों का इलेक्टोरल पॉवर कमज़ोर किया जाए। जिसके लिए अब इन्हें भारतीय नागरिकता से ही वंचित कर दिया गया है। इतना तो तय हो गया है कि ये 40 लाख मुसलमान अब ना तो वोट कर सकेंगे, ना इन्हें किसी सरकारी योजना का लाभ मिलेगा और न ही अपनी संपत्ति पर इनका कोई अधिकार रहेगा... यानी अब भाजपाइयों और कांग्रेसियों के लिए असम में कुर्सी का रास्ता साफ हो गया है।</div>
<div style="text-align: justify;">
सबसे अहम सवाल जो सभी के दिमाग़ में उठ रहा है वो ये है कि, अब इन 40 लाख लोगों के साथ सरकार क्या करेगी या इन लोगों का भविष्य क्या होगा? क्योंकि बांग्लादेश की सरकार तो इन्हें कभी भी और किसी भी सूरत में अपनाने से रही। जवाब बहुत आसान है। रोहिंग्या और फिलस्तीनी मुसलमानों की तरह इन्हें भी शरणार्थी कैम्पों बल्कि डिटेंशन कैंपों में भर दिया जाएगा। मिसाल के तौर पर 1985 से विशेष अदालतों ने जिन 85,000 से ज़्यादा लोगों को विदेशी घोषित किया था, वो पहले से ही हिरासती कैंपों में सड़ रहे हैं। और अब सरकार आवश्यकतानुसार नए डिटेंशन कैंप बनाने की बात कह रही है।</div>
<div style="text-align: justify;">
ये बात सभी को मालूम होनी चाहिए कि एक बड़े जनसमूह को डिटेंशन कैंप में रखने का क्या मतलब होता है... ये दरअसल gradually genocide यानि धीरे-धीरे नरसंहार करने का एक तरीका है। क्योंकि इन कैम्पों में महिलाओं और बच्चों को मर्दों से अलग रखा जाता है जिसका साफ़ मतलब है कि इनकी एक नस्ल खत्म होने के बाद कोई दूसरी नस्ल नहीं होगी। अलबत्ता, असम के मुसलमानों और रोहिंग्या व फिलस्तीनी मुसलमानों में थोड़ा सा फ़र्क़ है। वो फ़र्क़ यह है कि रोहिंग्या व फिलस्तीनी मुसलमानों को अन्य मुस्लिम देशों का बराए नाम समर्थन मिल गया था, जबकि असम के मुसलमानों को वो भी मिलने की संभावना दूर-दूर तक नज़र नहीं आ रही है। और तो और, देश के साढ़े उन्नीस करोड़ मुसलमान भी धीरे-धीरे होने वाले इस नरसंहार का सिर्फ तमाशा देख रहे हैं।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-73789268195364964602018-07-31T04:31:00.001-07:002018-08-28T08:38:44.185-07:00ہندوستان کے ہندو راشٹربننے کا مطلب؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br />
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ملک کے عوام و خواص، سیکولر غیر سیکولر اور خاص طور سے اقلیتی طبقے پر خوف و خدشات کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ لوگوں کے دل و دماغ میں یہ خوف دن بدن جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ جمہوری ہندوستان جلد ہی ایک ہندو راشٹرمیں تبدیل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ خدشہ کوئی نیا نہیں ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں ہندو راشٹر کے علمبرداروں کے زور پکڑنے ، ملکی سیاست پر ان کی گرفت مضبوط ہونے ، مسلم مخالف رجحانات کے پھیلاؤ اور آئے دن پیش آنے والے مسلم کش واقعات اور قصورواروں کی سرکاری پشت پناہی سے اس خدشے کو بہت تقویت ملی ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">درحقیقت ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ِوطن کے سانحے کے بعد سے ہی ملک کے مسلم طبقے کی طرف سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان اب غیر اعلانیہ طور پر ہندو راشٹربن چکا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ خود ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور ہندو۔مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار مانے جانے والے مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اعلانیہ طور پر کچھ اسی طرح کی بات کہی تھی۔ 1947میں دہلی کی جامع مسجد سے کئے گئے اپنے پُرجوش اور حکیمانہ خطاب میں کہا تھا ’’ہندو اکثریت کے علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانک صبح آنکھ کھلتے ہی اپنے وطن میں پردیسی اور اجنبی پائے گئے۔تعلیمی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ ہوگئے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہوگئے جو خالص’ ہندو راجــــ‘ بن گئی ہے۔‘‘</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">’’ہندو راشٹر‘‘ کا ایشو ویسے تو ہمیشہ موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ چند دنوں قبل کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کے بیان نے اس موضوع کو مزید گرما دیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر 2019کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی جیتی تو ملک کا آئین خطرے میں پڑ جائے گااور ہندوستان ’ہندو پاکستان‘ بن جائے گا۔ ششی تھرور کے اس بیان میں ’’اگر بی جے پی جیتی تو‘‘ کی شرط سے ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک سیاسی بیان تھا جو ملک کے اقلیتوں کو ڈرا کر انتخابی فائدہ اٹھانے کے مقصد سے دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ہمیں ہندو راشٹر کے مطلب اور اس کے دائرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے پیدا ہونے والے خوف کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سماج اور سیاست پر فرقہ پرستوں کی گرفت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ ہر خاص و عام کے اندر یہ احساس گھر کرتا جا رہا ہے کہ ہندوستان ’’ہندو راج‘‘سے ’’ہندو راشٹر‘‘ بننے کی راہ پر بہت تیزی سے گامزن ہے۔ ’’ہندو راج‘‘ سے مراد ہندوؤں کے تسلط اور غلبے والی حکومت ہے جیسا کہ آزادی کے بعد سے اب تک عملی طور پر ہندوستان میں ہندوؤں کا ہی راج اورہندوؤں کی ہی حکومت رہی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ملک کا آئین جمہوری ہے۔ غالباً مولانا ابو الکلام آزاد کے خطاب میں مذکورہ ’’ ہندو راج‘‘سے ہندوؤں کے غلبے والی حکومت ہی کی طرف اشارہ رہا ہوگا۔ جبکہ ہندو راشٹر کا مطلب ہندو رولنگ سسٹم یا پھر ہندو مذہب کی بنیاد پر بنے آئین سے چلنے والی حکومت ہوتا ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندو مذہب کے ایسے کون سے اصول و قوانین ہیں جنھیں ہندوتووادی طاقتیں ممکنہ طور پرجمہوری ہندوستان کو ہندو راشٹر بناتے وقت آئین سازی کے لیے بنیاد بنا سکتی ہیں۔ اس کے لئے ’’ہندو کوڈ‘‘ مانی جانے والی ہندو مذہب کی کتاب ’منواسمرتی‘ میں بیان کئے گئے قوانین و ضوابط پر نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ منواسمرتی کے مطابق ایگزیکٹو طاقت کا سرچشمہ بادشاہ ہے۔ اس قانون کی عملی مثال کے طورپر ماضی قریب میں ’’ہندو راشٹر‘‘ رہے نیپال کو پیش کیا جا سکتا ہے جہاں چھتریہ شاہی خاندان کی حکومت تھی اور سبھی اختیارات بادشاہ کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے اور گئو رکشا کے سخت قانون کے علاوہ منو اسمرتی کا کوئی اور قانون نیپال میں نافذ نہیں تھا۔ بہرحال نیپال میں ہندوبادشاہت ختم ہوگئی اور اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی بادشاہت کے دور کا واپس آنا کہیں سے بھی قرین قیاس نہیں لگتا۔ جہاں تک ہندوؤں کے راج اور حکومت کی بات ہے تو یہ آزادی کے بعد سے ہی روبہ عمل ہے۔ وہیں منواسمرتی کا دوسرا سب سے اہم اور سب سے متنازع اصول ’ورن ووستھا‘ یعنی ذات پات کا نظام ہے جس میں سبھی اختیارات و مراعات برہمنوں کیلئے مختص کردیے گئے ہیں۔ جبکہ شودروں(دلتوں) کو بنیادی حقوق سے یکسر محروم کردیا گیا ہے ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">ہندوتو کے علمبرداروں نے منواسمرتی کے اس نظام ’’ورن ووستھا‘‘ کو نافذ کرنے کی بات کبھی نہیں کی لیکن سیاسی نفع و نقصان کے پیش نظر کبھی اس کی مخالفت بھی نہیں کی۔ مگر ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہندوتو وادی طاقتیں ’ ورن ووستھا‘ نافذ کرنے سے رہیں۔ کیونکہ اس سے ہندو سماج کا اکثریتی طبقہ ان کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے گا۔ البتہ ڈھکے چھپے طریقے سے ہندوؤں کے اعلیٰ طبقے کو آگے رکھنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ ان طاقتوں کی موجودہ روش سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اسی طرح منواسمرتی کے دلت مخالفت دیگر قوانین کا بھی نفاذ تقریباً ناممکن ہے جن میں وید سننے پر دلتوں کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالنا، مندر میں داخل ہونے پرکھولتا تیل ڈالنا وغیرہ۔ پھر سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ’’ہندو راشٹر‘‘ سے ہندوتووادی تنظیموں کی ہندو راشٹر سے کیا مراد ہے۔ کیوں کہ ہندو مذہب میں اسلام کےمکمل نظام حیات یا پھر نظام حکومت کی طرح تو کوئی نظام موجود ہے نہیں۔ اس کا جواب ہمیں ’’ہندو راشٹر‘‘ کی بات کرنے والی آرایس ایس اور دیگر ہندوتووادی تنظیموں کے طرز عمل اورطریقہ کار پر نظر ڈالنے سے ملتا ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">آر ایس ایس کے طریقہ کار میں دو باتیں خاص طور سے نمایاں ہیں (1) ہندو ؤں کے مفاد اور ان کے غلبے کی وکالت(2)مسلم دشمنی۔ موجودہ وقت میں ہندوتووادی طاقتوں کی تمام تر سرگرمیاں انہیں دو پوائنٹس کے اردگرد گھومتی ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں مزید کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ طاقتیں ہندوستان کے جمہوری آئین میں ترمیم کرکے اس سے سیکولر اور جمہوری نقوش کو مٹا دیں اور اس میں’’ہندو راشٹر‘‘ کے باب کا اضافہ کردیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">اس بات کو ہم اسرائیل میں ہوئی تازہ پیش رفت سے بھی سمجھ سکتے ہیں جہاں’یہودیوں کی قومی ریاست‘ نام کا بل منظور کیا گیا۔ اس قانون کے مطابق اسرائیل یہودیوں کی تاریخی سرزمین ہے اور اس کی قومی خود ارادیت کا خصوصی حق صرف یہودیوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس قانون سے پہلے اسرائیل آئینی طور پر ایک سیکولر جمہوری ملک تھا جس میں سبھی شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کی زمینی حقیقت اس بات کی گواہ ہے کہ یہ متنازع ریاست اپنے قیام کے بعد سے کبھی بھی جمہوری سیکولر ریاست نہیں رہی بلکہ شروع سے ہی اسرائیلی ریاست ہی رہی ہے۔ اور اس زمینی حقیقت کو اب کاغذی طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">ممکن ہے کہ اسرائیل کی طرز پر ہندوتوا کے علمبردار بھی مستقبل میں مزید کامیابی ملنے پر ’ہندو راشٹر‘ یا ’ہندوؤں کی قومی ریاست‘ نام کا کوئی بل منظور کرلیں اور ہندوستان کو ہندوؤں کی فطری اور پیدائشی سرزمین قرار دیتے ہوئے قومی خود ارادیت کا حق صرف ہندوؤں کے لئے مختص کردیں۔ اور پھر اس کی مدد سے ملک کے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیں۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں آسام کے شہریت کے معاملے میں سرکار کی جانب سے ہندوؤں کو ہندوستان کا فطری اور پیدائشی شہری ہونے کا حق دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی اور آسام میں بی جے پی حکومت کے ریاستی وزیر نے بھی اس معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ بنگالی بولنے والے ہندو ہندوستان کے فطری شہری ہیں۔ یعنی شہریت صرف ریاست کے مسلمانوں کو ثابت کرنی ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ آسام کی قبائلی آبادی نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">تاحال ہندوتوا وادی طاقتیں ہندوستان کو آئین کی بنیاد پر ’ہندو راشٹر‘ نہیں بنا سکیں ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سمت میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ بلکہ یوں کہاجائے کہ آزادی کے بعد اب تک پیش آنے والے متعدد واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہندوتوا وادی طاقتیں اپنے منصوبوں میں بڑی حد تک کامیاب ہیں ۔1947میں آزادی کے فوراً بعد سرکار کی جانب سے سرکاری خرچ پر سومناتھ مندر کی تعمیر کرانا، 1992میں بابری مسجد کا گرایا جانا، آزادی کے بعد سے اب تک رونما ہوئے ہزاروں مسلم کش فسادات میں قصورواروں کے خلاف کارروائی نہ ہونا، ملک بھر میں موب لنچنگ کے واقعات میں مسلمانوں کا مارا جانا، 2013 نریندر مودی کے اسٹیج پر فسادات کے ملزم سنگیت سوم اور سریش رانا کی عزت افزائی، مرکزی وزیر مہیش شرما کی جانب سے اخلاق کے قاتلوں کی عزت افزائی، حال ہی میں مرکزی وزیر جینت سنہا کی جانب سے موب لنچنگ کے قصورواروں کی حوصلہ افزائی اور مرکزی وزیر گری راج کا فسادات کے ملزمین سے ملنا وغیرہ جیسے متعدد واقعات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں ہندوتو وادی طاقتیں اپنے منصوبے کے مطابق ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور ماحول سازی کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">انتخابی سیاست میں مسلمانوں کی حیثیت کو بے اثر بنانا، مسلمانوں کے قاتلوں کو سرکاری پشت پناہی ملنا، مسلمانوں کے ساتھ تعصب کو سماجی رجحان کا حصہ بنا دینا، حکومت، انتظامیہ، عدلیہ غرضیکہ ہر ایک شعبےسے مسلمانوں کی نمائندگی کو ختم کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ آر ایس ایس اپنی کھینچی لکیروں پر ہندوستان کو چلانے میں کامیاب ہے۔ بلکہ اسے کامیابی نہ کہہ کر یوں کہا جائے کہ ہندوستان ایک خطرناک انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر وطن عزیز اس سمت میں اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو اس ملک کی تقدیر میں خانہ جنگی جیسی تباہی اور خوں ریزی کے خدشات نمایاں نظر طور پر نظر آ رہے ہیں۔ بہر حال زمینی حقیقت کے اختلاف کے ساتھ ملک کا آئین اب تک اپنے جمہوری اور سیکولر اقدار پر قائم ہے۔ اس آئین کا تحفظ اور ملک کی سلامتی اور امن کی بحالی کی ذمہ داری ملک کے اکثریتی طبقے پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اقلیتی طبقے نے طویل مدت تک صبر اور قربانی کا مظاہرہ کرکے بڑی حد تک اپنا کردار ادا کردیا ہے۔ اور اب حالات کو سنبھالنے کا وقت اقلیتوں کے ہاتھ سے پھسل چکا ہے۔ اقلیتوں کے لئے اب ایک ہی کام بچا ہے، وہ ہے استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا۔ ملک کے مستقبل کا منظرنامہ بربادی یا شادابی کچھ بھی ہو اکثریتی طبقے کے کردار پر ہی منحصر ہے۔ اب اگر اکثریتی طبقے نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کریگی۔</span></div>
</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-85671298381808820462018-07-14T05:25:00.001-07:002018-08-28T08:41:56.804-07:00क्या भारत बन चुका है अघोषित हिन्दू राष्ट्र ?<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4>
</h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<div style="text-align: justify;">
भारत के हिन्दू राष्ट्र होने का दावा कोई नया नहीं है... स्वतंत्रता के तुरंत बाद से ही देश के मुस्लिम समुदाय की तरफ से यह बात कही जाती रही है कि भारत अब हिन्दू राष्ट्र बन चुका है... ख़ास बात यह है कि खुद भारत के सर्वप्रथम शिक्षा मंत्री और हिन्दू-मुस्लिम एकता के अलम-बरदार स्वर्गीय मौलाना अबुल कलाम आज़ाद साहब ने सब से पहले खुले-आम कुछ इसी तरह की बात कही थी... 1947 में दिल्ली की जामा मस्जिद से अपने संबोधन में कहा था " अब हिंदुस्तान में बसने वाले मुसलमान एक ऐसी हुकूमत के रहमो करम पर हो गए हैं जो खालिस हिन्दू राज बन गई है।"</div>
<div style="text-align: justify;">
"हिन्दू राष्ट्र" का मुद्दा वैसे तो हमेशा चर्चा का विषय बना रहता है लेकिन अभी हाल ही में कांग्रेस के सीनियर लीडर शशि थरूर के बयान के बाद से यह मुद्दा बहस के केंद्र में आ गया है। जिसके बाद से बहुत से लोग भारत को अघोषित हिन्दू राष्ट्र साबित करने पर तुल गए हैं। हालाँकि शशि थरूर ने यह कहा है कि अगर 2019 के लोकसभा चुनाव में बीजेपी जीती तो देश का संविधान खतरे में पड़ जाएगा और भारत हिन्दू पाकिस्तान बन जाएगा।</div>
<div style="text-align: justify;">
शशि थरूर के इस बयान में "2019 में बीजेपी जीती तो" के उल्लेख से एक बात तो स्पष्ट हो जाती है कि यह पूर्ण रूप से एक राजनीतिक बयान है जो अल्पसंख्यकों को डरा कर चुनावी लाभ उठाने के उद्देश्य से दिया गया है। लेकिन साथ ही यह भी सच है कि आज का भारत "हिन्दू राज" से "हिन्दू राष्ट्र" बनने की ओर अग्रसर है। "हिंदू राज" का मतलब हिंदुओं के प्रभुत्व वाली हुकूमत होता है जैसा कि स्वतंत्रा के बाद से व्यावहारिक रूप से भारत में हिंदुओं का ही राज रहा है... मगर वहीँ हमारा संविधान लोकतान्त्रिक है.. यही बात मौलाना अबुल कलाम आज़ाद ने अपने संबोधन में कही थी। जबकि "हिन्दू राष्ट्र" का मतलब हिन्दू रूलिंग सिस्टम या हिन्दू संविधान के तहत चलने वाली सरकार होता है।</div>
<div style="text-align: justify;">
आरएसएस और अन्य हिंदुत्ववादी संगठन लगातार प्रयास करने के बावजूद आजतक भारत को हिन्दू राष्ट्र नहीं बना सके। लेकिन ऐसा भी नहीं है कि इस दिशा में उन्हें कोई कामयाबी नहीं मिली है... बल्कि यूँ कहा जाए कि स्वतंत्रता के बाद से अबतक घटने वाली अनगिनत घटनाएं इस बात का सबूत हैं कि भारत बहुत तेज़ी से हिन्दू राज से हिन्दू राष्ट्र बनने की ओर अग्रसर है।</div>
<div style="text-align: justify;">
_1947 में आज़ादी के तुरंत बाद भारत सरकार द्वारा सरकारी खर्चे पर सोमनाथ मंदिर का बनना, फिर 1995 में तत्कालीन राष्ट्रपति शंकर दयाल शर्मा द्वारा उसका लोकार्पण करना।</div>
<div style="text-align: justify;">
_30 जनवरी 1948 को महात्मा गांधी का क़त्ल किया जाना।(हालांकि इसमें क़ातिलों को सज़ा देकर न्याय किया गया, वरना गांधी जी मुसलमान होते तो उन्हें भी न्याय नहीं मिलता)</div>
<div style="text-align: justify;">
_6 दिसंबर 1992 को बाबरी मस्जिद को गिराया जाना।</div>
<div style="text-align: justify;">
_ स्वतंत्रता के बाद से अबतक हुए लाखों दंगों के कुसूरवारों और ज़िम्मेदारों के खिलाफ कार्रवाई न होना, बल्कि सरकार और प्रशासन द्वारा दंगाइयों को खुली छूट देना।</div>
<div style="text-align: justify;">
_देश भर में हुई मोब लिंचिंग की घटनाओं में भीड़ द्वारा मुसलमानों का क़त्ल किया जाना।</div>
<div style="text-align: justify;">
_2013 में नरेंद्र मोदी के मंच पर दंगा आरोपी संगीत सोम और सुरेश राणा को सम्मानित किया जाना।</div>
<div style="text-align: justify;">
_हाल ही में केंद्रीय मंत्री जयंत सिन्हा और गिरिराज द्वारा दंगा और लिंचिंग के सज़ा याफ्ता मुजरिमों और आरोपियों को सम्मानित किया जाना आदि।</div>
<div style="text-align: justify;">
ऐसी कई घटनाएं हैं जो यह सिद्ध करती हैं कि भारत हिन्दू राष्ट्र बनने की ओर अग्रसर है लेकिन जबतक इस देश का संविधान अपने लोकतान्त्रिक मूल्यों पर कायम है..तबतक हिंदुस्तान को हिन्दू राष्ट्र नहीं कहा जा सकता क्योंकि लोकतंत्र के तीनों स्तंभ न्यायपालिका , कार्यपालिका और विधायिका संविधान के अनुसार ही चलते हैं। यह अलग बात है कि हिंदुत्ववादी ताक़तों ने इतना ज़हर फैला दिया है कि समाज और सरकार का कोई भी हिस्सा इस प्रदूषित सोच से सुरक्षित नहीं रहा।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-30014738540470010982018-04-18T23:38:00.000-07:002018-08-28T08:43:26.804-07:00कठुआ और उन्नाव गैंगरेप मामले में सीबीआई जांच और नार्को टेस्ट की ज़रुरत क्यों?<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
आजकल ये नया ट्रेंड चल पड़ा है कि आरोपी खुद ही सीबीआई जाँच और नार्को टेस्ट की मांग कर रहे है... संघी और बिकाऊ मीडिया संस्थान इस मांग का निस्पक्ष विश्लेषण करने के बजाए, इसे कठुआ और उन्नाव केस के आरोपियों के पक्ष में माहौल बनाने के लिए इस्तेमाल कर रहे हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
पहली बात तो ये कि जो भी आरोपी सीबीआई जाँच और नार्को टेस्ट की मांग कर रहे हैं उनका संबंध सत्ता पक्ष से है या फिर उन्हें सत्ताधारी पार्टी का समर्थन प्राप्त है और सत्ता पक्ष द्वारा सीबीआई का बुरी तरह मिसयूज़ किया जाना कोई ढकी छुपी बात नहीं हैं... इसलिए इन आरोपियों को लगता होगा कि सीबीआई और नार्को टेस्ट को मैनेज करके उन्हें बचा लिया जाएगा... </div>
<div style="text-align: justify;">
दूसरा अहम पॉइंट जो मीडिया को उठाना चाहिए था वो ये कि क्या वास्तव में इन केसों में सीबीआई जांच और नार्को टेस्ट की ज़रुरत है...? आखिर इस तरह की जाँच और टेस्ट की जरूरत कब और क्यों पड़ती है? सीबीआई जांच की ज़रुरत तब पड़ती है जब लोकल एडमिनिस्ट्रेशन आरोपियों को बचाने या केस को कमज़ोर करने की कोशिश कर रहा हो या फिर वो केस उससे हैंडल न हो रहा हो जैसे कि उन्नाव के केस में देखने को मिला... जबकि कठुआ रेप केस में ऐसा नहीं है... रही बात नार्को टेस्ट की तो दोनों ही केस के आरोपी इसकी मांग कर रहे हैं... ख़ास बात ये है कि नार्को टेस्ट की ज़रुरत तब पड़ती है जब सबूतों और गवाहों की कमी हो और ये बात आरोपी नहीं बल्कि अदालत और एजेंसियां तय करती हैं, कि नार्को टेस्ट की ज़रुरत है या नहीं... जबकि कठुआ मामले में डीएनए सैम्पल समेत आरोपियों के खिलाफ इतने सबूत हैं कि वहां सीबीआई जांच और नार्को टेस्ट की कोई ज़रुरत ही नहीं है... यकीन न हो तो एक बार चार्जशीट पढ़ कर देख लें ।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-13698418291255338992018-02-11T09:12:00.001-08:002018-02-11T09:12:39.956-08:00सलमान नदवी/श्री श्री के प्रस्तावित समझौते का क्या है क़ानूनी महत्व<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: left;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<div style="text-align: justify;">
अयोध्या विवाद में असल क़ानूनी फरीक़ सुन्नी वक़्फ़ बोर्ड, निर्मोही अखाडा और राम लला विराजमान हैं ... और विवाद के समझौते के तअल्लुक़ से ये बात हर किसी को समझ लेनी चाहिए कि सुप्रीम कोर्ट ने अपने पूर्व आदेश में समझौता करने का जो सुझाव दिया था वो इस मामले के तीनों क़ानूनी फरीक़ों के लिए था न कि किसी चौथे के लिए....और जब मामले के तीनों क़ानूनी फरीक अदालत से बहर समझौते के लिए तैयार नहीं हुए (और न आज हैं) तो अदालत ने मामले का क़ानूनी प्रोसीज़र शुरू कर दिया... और अब तीनों क़ानूनी फरीक़ समझौते की बात भूल कर अदालत में अपना अपना दावा मज़बूत करने में जुटे हैं... ऐसे में इस बीच में मौलाना सलमान और श्री श्री कौन होते हैं इस मामले में समझौता करने वाले... और क्या इनके इस समझौते की कोई कानूनी अहमियत होगी? बिलकुल नहीं... अदालत की नज़र में इनके समझौते का रत्ती भर भी महत्व नहीं होगा... फिर श्री श्री और सलमान नदवी का ये समझौते का ड्रामा किस लिए है? कहीं ऐसा तो नहीं कि हर चुनावी सीज़न में किसी न किसी पार्टी के लिए अपील करने वाले मौलाना सलमान नदवी इस बार बीजेपी के लिये बैटिंग कर रहे हों? ... श्री श्री के बारे में तो बड़ी हद तक ये कन्फर्म है कि वो 2019 के चुनाव के पेशेनज़र बीजेपी के लिए ज़मीन तय्यार कर रहे हैं और ये बात दबे लहजे में ही सही अपोज़ीशन पार्टियां भी मान रही हैं... इतना तो कन्फर्म है कि सलमान नदवी को ये बात मालूम होगी कि क़ानूनी फरीक़ों की रज़ामंदी के बग़ैर उनके प्रस्तावित विवादित समझौते की कोई क़ानूनी अहमियत नहीं होगी... तो फिर कहीं मौलाना का ये सारा खेल 2019 में बीजेपी को प्रचंड बहुमत दिलाने के लिए तो नहीं? कुछ तो है जिसकी पर्दादारी है।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-50558329833626326742017-12-26T10:12:00.001-08:002017-12-26T10:18:43.976-08:00बाबरी मस्जिद चाहिए या मुस्लिम पर्सनल ला? <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: left;">
तीन तलाक़ पर विवादित बिल का मक़सद ब्लैक मेलिंग तो नहीं!</h3>
<div>
<br /></div>
<h4 style="text-align: left;">
<span style="color: red;">
इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<div>
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
तीन तलाक़ पर प्रस्तावित बेतुकी और अन्यायपूर्ण बिल पर बीजेपी की हटधर्मी का मतलब समझ रहे हैं आप ? ज़ाहिरी तौर पर तो ऐसा लगता है कि इस बिल का मकसद मुस्लिम पर्सनल लॉ को टारगेट करना है ... मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड भी ज़ाहिरी तौर पर यही कह रहा है लेकिन मुझे ऐसा लगता है कि इस बिल का मक़सद मुस्लिम पर्सनल लॉ को टारगेट करना नहीं बल्कि इसकी आड़ में मुस्लिम पर्सनल बोर्ड को ब्लैक मेल करना है.... आगे चल कर बीजेपी और आरएसएस मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड के सामने ये दो ऑप्शन रख सकते है कि या तो मुस्लिम पर्सनल बचा लो या फिर बाबरी मस्जिद मामले में मुक़द्दमा लड़ लो यानि अगर अपना पर्सनल लॉ बरक़रार रखना है तो विवादित ज़मीन पर राम मंदिर के पक्ष में सझौता करके उसे हमें दे दो वरना पर्सनल लॉ से हाथ धो बैठोगे... इस बात का शक इसलिए हो रहा है बाज़ रिपोर्ट्स के मुताबिक इससे पहले 1985 में राजीव गांधी की सरकर बहुसंख्यकों का धुर्वीकरण करने के लिए सायरा बानो केस में बोर्ड को ब्लैकमेल कर चुकी है और बाबरी मस्जिद का ता<span style="text-align: left;">ला खुलवा कर विवादित स्थल पर मूर्तिपूजन की इजाज़त दे चुकी है... बीजेपी कांग्रेस की नक़ल करने में माहिर तो है ही... शक की दूसरी वजह यह है कि तीन तलाक़ पर सुप्रीम कोर्ट के फैसले के बाद जो मोदी हुकूमत अदालत के निर्देश के बावजूद कह रही थी कि वो तीन तलाक़ पर कोई क़ानून नहीं बनाएगी तो फिर आज उसे ऐसी क्या ज़रुरत आन पड़ी कि वो इस विवादित बिल को पास कराने पर अड़ गई है ? कुछ तो है जिसकी पर्दादारी है! मुमकिन है कि मुस्लिम पर्सनल ला बोर्ड को बीजेपी की इस छुपी मंशा के बारे में पता हो या फिर ये भी हो सकता है कि बीजेपी ने अभी तक अपना पत्ता न खोला हो।</span></div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-8781120477138614392017-07-29T03:53:00.004-07:002017-07-29T03:54:55.076-07:00نئے صدر جمہوریہ کے انتخاب و خطاب پر تنازع <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 dir="rtl" style="text-align: center;">
سیاست میں لفظوں کی بے ثباتی پر ملک کے مستقبل کے تئیں حساس طبقے کا فکر مند ہونا فطری امر ہے </h3>
<h4 dir="rtl" style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے رام ناتھ کووند نے ملک کے 14ویں صدر جمہوریہ کے طورپر حلف لے لیا ہے۔ حلف برداری کے بعد نو منتخب صدر جمہوریہ نے اپنے پہلے خطاب میں کثرت میں وحدت ، ملک کے کثیر ثقافتی معاشرے ، مساوات اور بھائی چارہ جیسے گرانقدر اور اطمینان بخش لفظوں کا استعمال کیا ۔اگر بات صرف لفظوں کی کی جائے تو یہ کچھ لوگوں کے لیے وقتی طور پر تسلی بخش ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اگر ملک کو درپیش نازک حالات اور مستقبل کے خطرات کو نظر میں رکھا جائے تو الفاظ اپنے معانی کھودیتے ہیں اور اگر کوئی اہمیت رہ جاتی ہے تو صرف عمل اور اقدام کی۔ اس سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی 2014میں پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ملک کےـ’ ـ125کروڑ ‘عوام کی بات کی تھی لیکن آگے چل کر حکومت کے اقدامات و عمل کے تضاد نے اس بیان کو بے معنیٰ کردیا۔ جب کہ نومنتخب صدر جمہوریہ کے خطاب اور انتخاب پر اٹھنے والے سوالات اور تنازعات سے تو موجودہ اور پیش آئند صورتحال ابھی سے بڑی حد تک واضح ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد نے رام ناتھ کوند کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ اپنی پہلی تقریر میں ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے کابینہ وزراء اور آر ایس ایس کے پسندیدہ مفکرین کا ذکر کرنا نہیں بھولے جب کہ جواہر لعل نہرو کا ذکر کرنے سے صاف صاف بچتے نظر آئے ۔ کانگریس کے ہی ایک دوسرے لیڈر جے رام رمیش نے نو منتخب صدر جمہوریہ کی تقریر میں ’دوبارہ تاریخ لکھنے‘ کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت اس کام میں بہت دلچسپی رکھتی ہے۔ ان کا اشارہ ملک کے دستور اور تاریخ کے ساتھ متوقع چھیڑ چھاڑ کی طرف تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل آر ایس ایس کے سینئر قائدین ملک کے آئین کی رواداری پر مبنی روایات و اقدار پر اکثر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ دستور کو تبدیل کرنے کی بات کرتے رہے ہیں جس سے ملک کے سیکولر اور اقلیتی طبقات کو فکر لاحق ہونا لازمی ہے۔ اگر چہ نومنتخب صدر جمہوریہ نے دستور کے خلاف ہونے والے حملوں کی روک تھام اور اسے تحفظ دینے کی بات کہی ہے لیکن ایوان سیاست میں بیانات کی کیا حیثیت ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ کئی بار تو ایسے بیانات کا مقصد محض فوری رد عمل کو دبانا یا عوام کے بیچ پیدا ہوئی بے چینی کی کیفیت اور ان کے خدشات کو دور کرنا ہوتا ہے تاکہ آگے چل کر بے فکر ہوکر اپنے پوشیدہ عزائم پر عمل درآمد کیا جا سکے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے نو منتخب صدر رام ناتھ کوند کی تقرری اور ان کے پہلے خطاب سے قبل ہی ان کے لفظوں کی حقیقت اپنے ایک بیان میں عیاں کردی۔ وزیراعظم نے بی جے پی کے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں نومنتخب صدر کی حلف برداری کے پیش نظر کہا کہ بی جے پی کے نظریاتی لیڈر شیام پرشاد مکرجی نے جو سفر شروع کیا تھا ، اُس میں رام ناتھ کووند کی تقرری ایک اہم اور غیرمعمولی سنگ میل ہے ۔نومنتخب صدر جمہوریہ کی حلف برداری تقریب میں لگے متنازع نعروں اور خود رام ناتھ کوند کا اپنی تقریر کو ’جے ہند‘ کے ساتھ اختتام کی روایت کے برخلاف ’وندے ماترم‘ سے ختم کرنے جیسے واقعات پر عوام میں بے چینی کی لہر پیدا ہونا فطری بات ہے۔ سبکدوش ہونے والے سابق صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے بھی شاید دستور کے ساتھ اسی موقع چھیڑ چھاڑ کے پیش نظر ہی پارلمنٹ میں اپنے آخری خطاب میں مودی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ قانون سازی کے مناسب پروسس کے بجائے آرڈیننس کا راستہ اختیار کرنے سے پرہیز کرے اور ناگزیر حالات میں ہی آرڈیننس کا استعمال کرے۔ دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے امکان کو اس بات سے مزید تقویت ملتی ہے کہ رام ناتھ کووند ممکنہ طور پر ایسے پہلے صدر جمہوریہ ہیں جن کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی راشٹرپتی بھون اور ان کے دفتر کے اہلکاروں و ذمہ داروں کی تقرری کا اعلان کردیا گیا ، باعث تشویش اور قابل فکر بات یہ ہے کہ راشٹرپتی بھون کے اہلکاروں اور ذمہ داروں کی تقرری وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کی جانب سے نریندر مودی کے انتخاب پر کی گئی ہے ، رام ناتھ کووند کی پسند یا انتخاب پر نہیں۔اسی سے اندازہ لگایا سکتا ہے کہ جب پہلے سے ہی آئینی طور پر صدر جمہوریہ کے اختیارات اتنے محدود تھے تو ایسے میں نومنتخب صدر جمہوریہ کس طرح کے صدر ہونے جا رہے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہوگی۔ نومنتخب صدر کی تقرری سے قبل ہی ان کے دائرہ کار میں مرکزی حکومت کی دراندازی سے دستور ہند کو درپیش خطرات و خدشات کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ تو رہی ملک کے دستوری اور سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرکے اسے فرقہ وارانہ بنیادوں پر استوار کرنے کی بات لیکن معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے ۔ ملک کے سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی ، ملکی ، بین الاقوامی سمیت تمام شعبہائے زندگی کو آر ایس ایس کے نظریات کے مطابق ڈھالنے کا کام بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کا معاملہ آئے دن سرخیوں میں رہتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جہاں انتہا پسند اور ہندوتو وادی طاقتوں کی بے جا مداخلت اور دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہیں ملک کی تعلیمی بنیاد یعنی ایجوکیشن پالیسی اور تعلیمی نصاب پر ہی ڈاکہ ڈالنے کی تیاری چل رہی ہے۔ جواہر لعل یونیورسٹی سے لے کر دہلی یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی ، پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ جیسے اعلیٰ اور مؤقر تعلیمی اداروں میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات سرکاری در اندازی کے جیتے جاگتے ثبوت ہیںکہ موجودہ حکومت ملک کے تعلیمی اداروں کا بھگوا کرن کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ میں نیشنل کاؤنسل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ کی کتابوں سے چھیڑ چھاڑ کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے جس میں آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی تنظیم اٹھان نیاس کے مشورہ پر نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کا نام کتابوں سے ہٹا دیا گیا ہے، جس پر ترنمول کانگریس نے راجیہ سبھا میں جم کر ہنگامہ کیا۔ دوسری جانب ملک و سماج کو اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے اور چلانے کا ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے جس میں مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس ایم وی مرلی دھرن نے اپنے ایک فیصلے میں تمل ناڈو کے تمام اسکولوں، کالجوں سمیت دیگر سرکاری اداروں میں قومی گیت ’’وندے ماترم‘‘ کا گانا لازمی قرار دے دیا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ان سب واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آر ایس ایس اور فرقہ پرست طاقتوں نےطویل منصوبہ بندی کے تحت ملک کے ان تمام شعبوں ، محکموں اور اداروں میں مضبوط جگہ بنا لی ہے جن کے ذریعہ سماج کی سمت، اس کا ڈھانچہ اور عوام کی سوچ و فکر طے ہوتی ہے۔ ایک طرف آر ایس ایس کی پوزیشن جتنی مضبوط ہے وہیں دوسری جانب اس کے نشانے پر آنے والے اقلیتوں کی حالت اتنی ہی خراب اور غیر مستحکم ہے جس سے ملک کے اکثر مسلمانوں کو مستقبل قریب میں حالات کے بگڑنے کا خدشہ لاحق ہے۔لہٰذا حال ہی میں ملک کے طول و عرض میں گئو رکشا کے نام پر یا کسی اور بہانے ہونے والےحملوں کو مستقبل میں درپیش حالات کا پیش خیمہ مانتے ہوئے ملک کے ہر خیرخواہ، ذی شعور اور روادار شہری کو فکرمند ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ای میل: imamuddinalig@gmial.com </div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-78252573583429864272017-07-11T04:44:00.001-07:002017-07-12T23:29:57.904-07:00خلیج تنازع کا مرکز سعودی ـ قطر نہیں، قبلہ اول اور اخوان ہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: center;">
مسلمانانِ ہند کو کسی بھی تنازع میں موقف اختیار کرتے وقت عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے</h3>
<h4 dir="rtl" style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: justify;">
قطر کا بائیکاٹ کرنے والے چار عرب ممالک سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دوحہ کی جانب سے اپنے مطالبات مسترد کیے جانے پر اس پر عائد پابندیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزید سیاسی ، اقتصادی اور قانونی اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اقدامات کس نوعیت کے ہوں گے اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔تاہم اس کی طرف کچھ اشارہ سعودی حکام پہلے ہی کر چکے ہیں جس میں قطر کے خلاف سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ کے دائرے کو مزید وسیع کرتے ہوئے اس کے لیے دیگر ممالک کو بھی تیار کرنے اور قطر مخالف ایک بڑا بلاک کھڑا کرنے کی بات کہی جا چکی ہے۔اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی ہوسکتے ہیں ۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ دوسری جانب جب ترکی اور ایران قطر کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور خود برطانیہ، جرمنی اور امریکہ جیسے مغربی ممالک کے بھی قطر سے وسیع سیاسی، اقتصادی اور عسکری مفادات وابستہ ہیں تو کیا ان حالات میں خلیجی ریاستوں کی جانب سے عالمی سطح پر قطر مخالف ملکوں کا محاذ بنانے کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے؟ فی الحال اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور اگر آگے چل کر زمینی سطح پر ایسی کوئی کوشش کی بھی گئی تو عین ممکن ہے کہ ترکی اور روس کا مضبوط اتحادی ایران ان کوششوں کو ناکام بنا دےگا۔ </div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خلیجی ممالک کی جانب سے قطر پر پابندیوں کے دائرے کو مزید وسیع کرنے کے اعلان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ فی الحال ان کا اس تنازع کو حل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہےگرچہ دوسری جانب قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے مثبت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے انکار کا جواب محاصرہ اور دھمکیاں نہیں ہیں بلکہ اس کا حل مذاکرات اور پابندیوں کی وجوہات بتانا ہے۔ واضح رہے کہ قطر شروع سے ہی ان خلیجی ممالک کی پابندیوں کو توہین کے مترداف قرار دیتے ہوئے ان کے مطالبات کو ناقابل عمل اور ناقابل تسلیم قرار دیتا رہا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دوسری جانب اس تنازع میں شروع سے لے کر اب تک امریکہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ ان خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کا اعلان ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی دورے کے فوراً بعد سامنے آیا تھا۔ خود امریکی صدر نے بھی اس دورے سے واشنگٹن واپسی کے بعد ببانگ دہل تسلیم کیا تھا کہ ان کے اس دورے کا بنیادی مقصد مبینہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو بند کرانا تھا اور قطر کے بائیکاٹ کے تناظر میں انھوں نے سعودی عرب کے تعاون کی تعریف بھی کی تھی۔اس کے علاوہ اس معاملے میں خلیجی حکام میں سے جو شخص سب سے زیادہ متحرک اور فعال بتایا جا رہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ بھی عرب سیاست میں جس کے فعال کردار کو علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں وہ ہیں سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز جو کہ 5جون کو اس تنازع کے شروع ہونے سے قبل تک سعودی عرب کے نائب ولی عہد تھے اور پھر 21جون کو ولی عہدی کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انھیں سعودی عرب کا ولی عہد یعنی اگلے بادشاہ کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ بہر حال یہ سب کچھ یکایک نہیں ہوا بلکہ اس کا قیاس پہلے سے ہی لگایا جا رہا تھا۔ محمد بن سلمان کو ولی عہد بنائے جانے کے اعلان سے کئی دن پہلے ہی ’گلوبل ليكس‘ کے نام سے ہیکروں کے ایک گروپ نے امریکہ میں متعین عرب امارات کے سفیر یوسف القتیبہ کے متعدد صفحات پر مشتمل ای میلس لیک کرکے ایک سے بڑھ کر ایک حیرت انگیز انکشافات کیے تھے جن میں محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا ولی عہد بنائے جانےکے ساتھ ساتھ قطر ، حماس اور الاخوان المسلمون پر پابندیاں عائد کرنے کے انکشافات بھی شامل تھے۔ ’’گلوبل لیکس‘‘ نے ان ای میلس کو ہیک کرنے کے بعد انھیں انٹر سپٹ ، ہفنگٹن پوسٹ اور ڈیلی بیسٹ کو ارسال کردیا تھا۔ ان ای میلس کو پڑھنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات اسرائیل کے حامی Foundation for Defense of Democracies (FDD) نام کے ایک تھنک ٹینک کے توسط سے صہیونی ریاست اسرائیل سے پس پردہ منظم روابط قائم کیے ہوئے ہیں اور ماضی میں بھی یہ خلیجی ریاستیں مشترکہ کاز کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ اس تھنک ٹینک کے بانی شیلڈن ایڈلسن نام کے ایک اسرائیل نواز یہودی ہیں جو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے قریبی اتحادی مانے جاتےہیں ۔ جہاں تک لیک کی گئی ان ای میل کے معتبرہونے کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ خود عرب امارات نے بھی یوسف القتیبہ کے ای میل اکاؤنٹ کے ہیک کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔ انھیں میں سے ایک ای میل میں اماراتی سفیر یوسف القتیبہ کو اس امریکی اسرائیلی تھنک ٹینک کے کاؤنسلر ’جان ہنا ‘سے محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا کراؤن پرنس یعنی ولی عہد بنانے کی خواہش کا شدت سے اظہار بھی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انھیں ای میل میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ تھنک ٹینک کے کاؤنسلر جان ہنّا کی سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان اور عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زائد سے بھی میٹنگ طے پائی تھی جس کے ایجنڈے میں اصل ٹارگیٹ قطر، الجزیرہ چینل ، حماس اور اخوان ہی تھے۔اسی انکشاف سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ سال ترکی میں ہوئی بغاوت بھی گہری سازش کی مرہون منت تھی ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بغاوت میں تعاون کرنے پر جان ہنـا نے اپنے ایک میل میں "یوسف القتیبہ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے ....واضح رہے کہ جان ہنا نے ہی ترکی میں بغاوت سے پہلے ہی اپنے ایک مضمون میں بغاوت کی پیش گوئی کر دی تھی جس سے اس ساز باز کے امکان کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ بہر حال ان انکشافات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عرب انتشار اور مشرق وسطیٰ کے بحران کے پس پردہ صہیونی اور امریکی طاقتوں کی سازشیں کارفرما ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
فی الحال قطر تنازع کے طول پکڑنے کے معاملے میں بھی امریکی کردار پر شک و شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق خلیجی ریاستوں کی جانب سے ان مطالبات کا جواب دینے کے لیے متعین کی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد امریکی صدر نے خلیجی ممالک سے ٹلیفون پر بات چیت کی تھی اور اس بات چیت کے فوراً بعد ہی خلیجی ممالک کے سربراہان کی جانب سے قطر پر پابندیوں کا دائرہ مزید وسیع اور سخت کرنے والے بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔بہر حال اس پورے تنازع میں امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔ اور کوئی عام فہم انسان بھی خلیجی ممالک کے مطالبات پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ آخر فلسطینیوں کے بقا کی جنگ لڑ نے والی حماس اور مصر کی اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کے خلاف مورچہ کھولنے سے کسے فائدہ ہوگا؟ یہ بات واضح رہے کہ اس تحریر کا مقصد قطر کا دفاع کرنا نہیں ہے اور قطر دودھ کا دھلا ہوا قطعی نہیں ہے۔ اس تنازع میں بھی ضروری نہیں کہ قطر ہر قیمت پر فلسطینی کاز اور اخوان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ عین ممکن ہے کہ یہ چھوٹا سا ملک مغربی و خلیجی ممالک کے ناقابل برداشت دباو کے آگے سرینڈر ہوجائے گا جیسا کہ خبر آ رہی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ قطر دورے کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کے لیے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق ایک اہم معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ اس پورے تنازع میں سنجیدہ افراد کے نظر میں قطر اصل موضوع بحث کبھی رہا ہی نہیں بلکہ اصل مسئلہ قبلہ اول اور فلسطینی کاز کا ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ نے بھی ایک بیان میں فلسطین کا سودا کرنے پر نام نہاد مسلم ممالک کو متنبہ کیا تھا۔ بہرحال یہ سب کچھ اتنا واضح ہونے کے باوجود امت مسلمہ کا بحیثیت مجموعی یہ حال ہے کہ وہ واضح طور پر دو گروپوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہےاور یہ سب اس لیے ہے کہ شاہی اور ملکی مفادات کی جنگ مسلک اور فرقے کی آڑ میں لڑی جا رہی ہے ۔ جس نے عام مسلمانوں کو اس خطرناک حد تک متاثر کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے فرقوں کے مراکز کی حمایت اور مد مقابل کی مخالفت میں قرآن و سنت کے عدل و انصاف کے واضح تقاضوں کو بھی یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ سعودی عرب کی اندھی حمایت پر آمادہ ہے تو دوسرا گروہ ہر حالت میں ایران کے دفاع پر بضد ہے۔ کچھ لوگ قطر جیسے چھوٹے ممالک پر سعودی عرب کی زیادتی پر آنکھ بند کر لیتے ہیں تو کچھ لوگ ایران کی توسیع پسندانہ پالیسی پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔کچھ لوگ سعودی کے ذریعہ مصر میں تختہ پلٹ کرکے قائم کی گئی السیسی کی غاصبانہ حکومت کی ڈھٹائی سے حمایت کرنے پر متفق ہیں تو کچھ لوگ یمن میں بغاوت کرکے حوثیوں کے ذریعہ اقتدار چھیننے پر خوش ہیں۔جہاں مسلمانوں کا ایک گروہ شام میں ایران کی بمباری اور دیگر خطوں میں اس کی مداخلت کی حمایت کرنے پر پورے زور و شور سے متحرک ہے ، تو وہیں دوسرا گروہ یمن میں سعودی عرب کی بمباری اور دیگر ممالک میں اس کی دخل اندازی کی حمایت کرنے پر ڈٹا ہوا ہے!کچھ لوگ سعودی عرب کے امریکہ سے کھلے عام تو اسرائیل سے پس پردہ برتے جا رہے تعلقات کو نظر انداز کردیتے ہیں تو وہیں کچھ لوگ ایران کے ذریعہ متنازع شامی صدر بشار الاسد کی ہر حال میں حمایت کرنے اور روس سے اتحاد کرنے کو جی جان سے سپورٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پس پردہ امریکہ و اسرائیل سے اس کے تعلقات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان دونوں ہی فریقوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ اپنے اپنے حامی ممالک کے نام پر کھیلے جانے والے فرقہ واريت کے جان لیوا کھیل کے بھی کٹر حامی ہیں ۔ یہی وجہ ہے یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کی اندھی مخالفت پر بھی آمادہ ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ طبقہ فرقہ پرستی میں اندھا ہو کر عدل و انصاف کے راستے سے ہٹتا اور عدل کے تقاضوں کو فراموش کرتا جا رہا ہے۔ جبکہ قرآن واضح طور پر حکم دیتا ہےکہ ’’اور تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ، تم (ہر حال میں) عدل کرو، یہ تقوی سے زیادہ قریب ہے کہ تم عدل کرو، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔‘‘(سورۃ المائدہ 5:8)ایک دوسرے مقام پر قرآن فرماتا ہے کہ ’’بے شک اللہ انصاف اور نیکی کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘(سورہ النحل 16:90) ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’"اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو" ۔‘‘(سورۃ النساء)<br />
یہ تو رہا اسلام میں عدل و انصاف کا تقاضہ ،لیکن اس کے برعکس ہم ہندوستانی مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جب ایک ملکی چینل این ڈی ٹی وی پرایک دن کی پابندی کا اعلان ہوتا ہے تو ہم سراپا احتجاج بن جاتے ہیں لیکن وہیں دوسری جانب الجزیرہ پر آئے بحران پر ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے! جب کہ جس طرح ملکی سطح پر NDTV کسی حد تک ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، بین الاقوامی سطح پر الجزیرہ چینل اس سے کہیں زیادہ مظلوم اور بے بس لوگوں کی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب انٹرنیشنل میڈیا مسلمانوں اور دبے کچلے طبقوں کی آواز کو نظر انداز کرنے یا دبانے کا کام کر رہا ہے تو ایسے میں الجزیرہ دنیا کے ہر خطے کے مظلوموں کی آواز پوری تندہی سے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ابھی حال ہی میں ہندوستان میں NotInMyName کے بینر تلے ہوئے احتجاج سمیت دیگر احتجاجات کو بھی کور کرنے میں الجزیرہ پیش پیش رہا ہے۔ ایسے میں الجزیرہ پر آئے بحران پر ملک کے سیکولر اور مسلم طبقوں کی خاموشی کو آخر کیا سمجھا جائے ؟ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم تمام ملکی و بین الاقوامی اور باہمی معاملات میں جب بھی کوئی موقف اختیار کریں یا رائے قائم کریں تو قرآن و سنت میں بیان کردہ عدل و انصاف کے معیار کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-34219322431530903442017-07-07T22:21:00.002-07:002017-07-08T00:09:56.462-07:00सऊदी भक्ति या ईरान परस्ती ने कहीं आप को अद्ल व इन्साफ से फेर तो नहीं दिया ?<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
दिक़्क़त यह है कि इस समय मुसलमानों का एक गिरोह सऊदी अरब की अंधभक्ति पर उतारू है तो दूसरा गिरोह ईरान परस्ती पर अडिग है। कुछ लोग क़तर जैसे छोटे देशों पर सऊदी अरब की दादागीरी पर आँख मूँद लेते हैं तो कुछ लोग ईरान की विस्तार की पालिसी को मौन समर्थन देते हैं! </div>
<div style="text-align: justify;">
कुछ लोग सऊदी द्वारा मिस्र में तख्ता पलट करके क़ायम की गई अल-सीसी की नाजायज़ हुकूमत का ढिठाई से समर्थन करने पर सहमत हैं, तो कुछ लोग यमन में बग़ावत करके हौसियों के सत्ता छीनने पर खुश हैं! </div>
<div style="text-align: justify;">
जहाँ मुसलमानों का एक गिरोह सीरिया में ईरान की बम्बारी और अन्य छेत्रों में उसके हस्तक्षेप का समर्थन करने पर लामबंद है तो वहीँ दूसरा गिरोह यमन में सऊदी अरब की बम्बारी और अन्य देशों में उसकी दखल अंदाज़ी का समर्थन करने पर डटा हुआ है !</div>
<div style="text-align: justify;">
कुछ लोग सऊदी के अमेरिका से खुले आम तो इजराइल से पसेपरदा बरते जा रहे तअल्लुक़ात (संबंध) को नज़रअंदाज़ करते हैं तो वहीँ कुछ लोग ईरान द्वारा ज़ालिम बशार अल-असद की सत्ता को हर हाल में समर्थन देने और रूस से गठबंधन करने को जी जान से सपोर्ट करते हैं !</div>
<div style="text-align: justify;">
और इन दोनों ही पक्षों में यह बात कॉमन है कि ये अपने अपने समर्थक देशों की फ़िरक़ावारियत के भी कट्टर समर्थक हैं जिससे यह बात स्पष्ट हो जाती है कि यह लोग दरअसल फ़िरक़ापरस्ती में अंधे हो कर अद्ल व इन्साफ (न्याय) के रास्ते से हट गए हैं और इसी कारण ये दोनों गिरोह एक दुसरे के अंधविरोधी भी हैं। जबकि क़ुरान स्पष्ट रूप से आदेश देता है :</div>
<div style="text-align: justify;">
"और तुमको किसी क़ौम की दुश्मनी इस पर न उभारे कि इन्साफ़ न करो...और लोगों की दुश्मनी तुमको इस बात पर आमादा न करे कि इन्साफ़ छोड़ दो... किसी गिरोह की दुश्मनी तुमको इतना उग्र न कर दे कि तुम इन्साफ़ से फिर जाओ, तुम (हर हाल में) अदल करो, ये तक़वा से ज़्यादा क़रीब है कि तुम अदल करो, अल्लाह से डर कर काम करते रहो, जो कुछ तुम करते हो अल्लाह उससे पूरी तरह बाख़बर है" (क़ुरआन)</div>
<div style="text-align: justify;">
"बे-शक ख़ुदावंदे आलम इन्साफ़ और नेकी करने और एहसान करने का हुक्म देता है।" (क़ुरआन)</div>
<div style="text-align: justify;">
"और जब लोगों के बाहमी झगड़ों का फ़ैसला करने लगो तो इन्साफ़ से फ़ैसला करो।" (क़ुरआन)</div>
<div style="text-align: justify;">
"क्या वह लोग उस शख़्स के बराबर हो सकते हैं जो लोगों को अद्ल और मियानारवी का हुक्म करता है और वह ख़ुद भी सीधी राह पर क़ायम है।" (क़ुरआन)</div>
<div style="text-align: justify;">
"और सच्चाई और इन्साफ़ में तुम्हारे परवरदिगार की बात पूरी हुई।" (क़ुरआन)</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-90771841233682490872017-06-09T02:08:00.001-07:002017-06-10T02:57:52.109-07:00सऊदी अरब की चालबाज़ी और उस पर "मुसलमानों" की वाह वाही !<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
सऊदी अरब ने क़तर के विरुद्ध जो मोर्चा खोल रखा है वो केवल उन संगठनों विरोध में है जो इस समय दुनिया भर के मुसलमानों के दिलों की धड़कन और इस्लाम के पुनर्जागरण के लिए उम्मीद की किरन हैं। सऊदी के विदेश मंत्री आदिल अल-जबीर ने फ़्रांस की राजधानी पैरिस में एक बयान में स्पष्ट रूप से कहा है कि क़तर को "हम्मास" और "इख़्वानुल मुस्लिमून" की मदद बंद करनी होगी। यानी अभी तक "दाइश" और "हूसी" का नाम केवल प्रोपेगंडा के तहत क़तर के खिलाफ माहौल बनाने के लिए उछाला जा रहा था। </div>
<div style="text-align: justify;">
सऊदी अरब के समर्थकों को अब यह बात अच्छी तरह से समझ लेनी चाहिए कि इस्लाम के पुनर्जागरण का विरोधी यह कठपुतली डिक्टेटर देश किस के साथ और कहाँ खड़ा है और किन लोगों के इशारों पर नाच रहा है। सऊदी अरब के समर्थक मुस्लिम भाइयों को अपने रवैये पर सख्ती से पुनर्विचार करने की ज़रुरत है जो कि सऊदी और उसके शाही खानदान का आँख बंद करके समर्थन करते हैं। इस समय आले सऊद का रवैया ऐसा है मानो कि वो अपनी खानदानी बादशाहत को बचाने और क्षेत्र में अपने जाह व जलाल को बरक़रार रखने के लिए इस्लाम दुश्मनों के तलवे चाटना तो छोड़िए, पूरी दुनिया के मुसलमानों को भी दाव पर लगा सकते हैं, फीलहाल तो इस्लाम को सत्ता से रोकने के लिए मोर्चा तो खोले ही हुए हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
पूरी दुनिया के मुस्लमान यह बात अच्छी तरह से जानते हैं कि हमारे आइडियल सऊदी हुकुमरान नहीं बल्कि नब (स.) और सहाबा (र.) हैं। उन्होंने खिलाफत क़ायम की थी जबकि ये सत्ता और ऐश परस्ती की भूखी बादशाहत हैं। इस्लामी निज़ामे हुकूमत से गद्दारी करके ये इस्लामी दुनिया के रहबर नही हो सकते। </div>
<div style="text-align: justify;">
दरअसल इस समय सऊदी अरब सारा ड्रामा, उसकी पूरी राजनीति और उसका टोटल इंट्रेस्ट केवल अपनी खानदानी बादशाहत को बचाने और उसे क़ायम रखने में है और इसके लिए वो किसी भी हद तक जा सकते हैं। च्योंकी उनके लिए इस समय सब से बड़ा खतरा इस्लाम का पुनर्जागरण और पोलिटिकल इस्लाम है क्योंकि अगर इस्लाम सत्ता में आया तो वहां आले सऊद की खानदानी बादशाहत के लिए कोई जगह नहीं रहेगी। लेहाज़ा आले सऊद ने अपनी सत्ता बचाने के लिए इस्लाम के पुनर्जागरण के लिए संघर्ष कर रहे "हम्मास" और "इख्वान" जैसे संगठनों के विरुद्ध ही मोर्चा खोल दिया। दूसरी ओर पश्चिमी और सहयूनी ताक़तें भी इस्लाम को सत्ता से रोकने की भरपूर कोशिश कर रही थीं लेहाज़ा उन्हों ने इस्लामी दुनिया में डिक्टेटर हुकूमतों को क़ायम करने के साथ साथ उन्हें स्थिरता प्रदान करके वक़्ती तौर पर इस्लाम को सत्ता से दूर रखने में कामयाब रहीं। लेहाज़ा उनकी खानदानी बादशाहत को बचाने में पश्चिम और सहयोनियों की मदद के बदले आले सऊद और अन्य डिक्टेटर हमेशा इस्लाम दुश्मनों का तलवा चाटने के लिए मजबूर रहे। </div>
<div style="text-align: justify;">
पोलिटल इस्लाम के विरोध के मामले में पश्चिमी देशों और आले सऊद के रवैया में बस इतना फ़र्क़ है कि पश्चिमी देश इस्लाम से दुश्मनी के कारण पोलिकाल इस्लाम का विरोध करते रहे हैं जब्कि आले सऊद जैसे डिक्टेटर अपनी खानदानी बादशाहत को बचाने के लिए कर रहे हैं। रही बात इराक़ और सीरिया में तबाही मचाने की तो सऊदी अरब और ईरान बराबर के ज़िम्मेदार है। जहाँ ईरान ज़ालिम बशार अलअसद और रूस के साथ मिल कर तबाही मचा रहा है तो वहीँ सऊदी अब ज़ालिम अमेरिका और इजराइल के साथ मिल कर तबाही मचा रहा है। दोनों ही देश अपने अपने राजनितिक हितों के लिए पूरी उम्मत को तबाह करने पर तुले हुए हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
लेकिन सब कुछ इतना स्पष्ट होने के बावजूद सऊदी के अंध समर्थक कुछ इस तरह का बर्ताव कर रहे हैं जैसे आरएसएस और बीजेपी के भक्त करते हैं। एक तरफ तो ये लोग पहले ही आले सऊद की मुखालिफत को सीधे इस्लाम की मुखालिफत से जोड़ कर अपनी अंध भक्ति का काफी सबूत दे चुके हैं, बिलकुल उसी तरह जैसे भक्त आरएसएस और बीजेपी के विरोध को देश के विरोध से जोड़ देते हैं। मगर हद तो तब हो गयी जब कुछ सऊदी समर्थक ये तक कहने लगे कि सऊदी अरब का विरोध करना है तो ईरान और तुर्की चले जाओ जैसे भक्त बात बात पर पाकिस्तान भेजने की बात करते हैं!</div>
<div style="text-align: justify;">
सभी मुसलमानों से निवेदन है कि सऊदी का समर्थन करने से पहले वो कम से कम निम्न लिखित बिंदुओं पर संजीदगी से विचार कर लें: </div>
<div style="text-align: justify;">
1- सऊदी अरब "हम्मास" का विरोध करके किस की मदद कर रहा है ? किसके इशारे पर और क्यों कर हम्मास के खिलाफ मोर्चा खोला है ?</div>
<div style="text-align: justify;">
एक तरफ सऊदी अरब का हम्मास और इख्वान का खुल कर विरोध, दूसरी ओर इजराइल और अमेरिका से खुल्लम खुल्ला याराना, किसी के दिमाग को खोलने के लिए यही एक पहलु काफी है। </div>
<div style="text-align: justify;">
2- दूसरी बात ये कि क्या आप मिस्र में इख्वान की इलेक्टेड हुकूमत के तख्ता पलट और इख्वान को आतंकवाद की लिस्ट में डालने जैसे सऊदी अरब के घिनौने अपराधों को जवाज़ फ़राहम कर सकते हैं ?</div>
<div style="text-align: justify;">
3.तीसरी बात यह कि जब खुद अमेरिकी राष्ट्रपति खुले आम दावा कर रहा है कि सऊदी और अन्य अरब देशों ने उनके कहने पर क़तर के खिलाफ मोर्चा खोला है। तो क्या आप यह सब जानने के बाद भी इन कठपुतली सरकारों का अंध समर्थन करते रहेंगे ?</div>
<div style="text-align: justify;">
लेहाज़ा मेहरबानी करके मसलक की बुनियाद पर सऊदी अरब का समर्थन करना बंद करें। क्योंकि मसलक की बुनियाद पर किसी डिक्टेटर हुकूमत का समर्थन या विरोध करना दोनों ही गलत है और ख़ास कर तब जब उस हुकूमत का इस्लामी तर्ज़े हुकूमत से कोई मेल नहीं। इस्लाम का मुतालबा तो ये है कि हमारी दोस्ती और दुश्मनी सब कुछ सिर्फ अल्लाह की रज़ा लिए हो, हमरा विरोध और समर्थन सिर्फ इस्लाम की सरबुलन्दी के लिए हो। </div>
<div style="text-align: justify;">
आखिर में सऊदी समर्थकों से विनम्रता पूर्ण निवेदन है कि किसी का समर्थ या विरोध करना आप का निजी अधिकार है लेकिन मेहरबानी करके आले सऊद के समर्थन में "हरमैन शरीफ़ैन" (काबा और मस्जिदे नबवी) को ढाल न बनाएं। एक डिक्टेटर के बचाव में हरमैन शरीफ़ैन को ढाल बना कर इस्लामी मुक़द्दसात का वक़ार मजरूह न करें। इस लिए कृपा करके बात बात पर "खादिमुल हरमैन शरीफ़ैन" का राग अलापना बंद करें। धन्यवाद</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-27842278241644046472017-05-30T21:38:00.002-07:002017-05-30T21:40:19.349-07:00केवल गौ-हत्या बैन के विरोध में अलग देश की मांग तो फिर कॉमन सिविल कोड पर क्या हाल होगा?<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
वो "गौ-हत्या" विवाद के बहाने मुसलमानों को घेरने की कोशिश रहे थे कि खुद अपनी ही चाल में घिर गए और अब हाल यह है कि मात्र गोश्त के विवाद पर ही साउथ इंडिया को अलग देश "द्रविदनाडु" बनाने की मांग ज़ोर पकड़ने लगी है। साउथ इंडिया की ओर से फासीवादी ताक़तों को उन्हीं की भाषा में मिले जवाब से अब शायद उन्हें अपनी हैसियत पता चल गयी होगी।</div>
<div style="text-align: justify;">
निस्संदेह "अल्लाह सब से बेहतर चाल चलने वाला है।"</div>
<div style="text-align: justify;">
अरे, अपने ही समुदाय पर मात्र एक मामले में एक क़ानून लागू करना जिनके बस की नहीं, वो चले थे पूरे देश के लिए कॉमन सिविल कोड बनाने! जब एक मामले पर "द्रविदनाडु" की मांग हो रही है तो ज़रा सोचिए कि जिस दिन कॉमन सिविल कोड की बात आएगी उस दिन क्या हाल होगा? उस समय तो आंबेडकरलैंड, यूनियन ऑफ़ आदिवासी, 'गोरखालैंड', रिपब्लिक ऑफ़ तामिल, यूनियन ऑफ़ तेलगु भाषी, सिख समुदाय का 'खालिस्तान' रिपब्लिक ऑफ़ राजपूताना आदि न जाने कितने टुकड़ों में यह देश बटेगा कोई सोच भी नहीं सकता, और रह जाएगा तो केवल फासीवादी ताक़तों का 'जम्बूद्वीप' का लॉलीपॉप! </div>
<div style="text-align: justify;">
इसी लिए कहता हूँ, तुमसे न होगा, रहन दो, तुम्हारे बस का ना है। तुम केवल कमज़ोरों और असहाय लोगों पर अत्याचार कर सकते हो, उत्पात मचा सकते हो, देश को तोड़ सकते हो, लोगों को और देश को जोड़ना, सब को साथ लेकर चलना, सब के साथ न्याय करना और शांति स्थापित करना तुम्हारे बस में नहीं है। न्याय और निर्माण तो तुम्हारी खमीर में ही शामिल नहीं है। विवाद, हिंसा और नफरत ही तुम्हारी पहचान, तुम्हारा आचरण और तुम्हारी फितरत है।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-65938071894228440812017-05-17T21:33:00.001-07:002017-05-17T21:40:58.058-07:00सिब्बल की दलील के मायने: बाबरी मस्जिद और तलाक़ के बीच कपिल सिब्बल का समझौते का इशारा<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<div style="text-align: justify;">
सुप्रीम कोर्ट में मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड के वकील कपिल सिब्बल ने बहुत ही खतरनाक बयान दिया है। ब्राह्मण सिब्बल ने एक तीर से कई शिकार करने की कोशिश की है जैसा कि उन्हों कहा कि “जिस तरह राम का जन्मस्थान अयोध्या के लोगों की आस्था से जुड़ा मामला है, उसी तरह तीन तलाक भी आस्था से जुड़ा मामला है।”</div>
<div style="text-align: justify;">
सिब्बल के बयान का साफ़ साफ़ मतलब ये है कि अदालत समझौता करते हुए मुसलमानों को तीन तलाक़ का अधिकार दे दे और बदले में हिन्दू पक्ष को बाबरी मस्जिद के स्थान पर राम मंदिर बनाने दे। इस तरह से ब्राह्मण कपिल सिब्बल ने मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड की तरफ से पहले ही मान लिया कि राम अयोध्या में उसी विवादित स्थान पर जन्म लिए थे।</div>
<div style="text-align: justify;">
उनके अनुसार अगर मुसलमान तीन तलाक़ को आस्था का मामला बता कर उसमें हस्तक्षेप न करने की बात कर रहे हैं तो इसी तरह राम जन्म भूमि और राम मंदिर का मामला भी हिन्दुओं की आस्था का मामला है जिसमें हस्तक्षेप नहीं होना चाहिए। जबकि यह दोनों दो अलग अलग मामले हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
बाबरी मस्जिद /राम जन्म भूमि विवाद दो पक्षों के बीच का एक सिविल मामला मामला है जिसमें तीन प्रतिवादी हैं, दो प्रतिवादी एक ही पक्ष से संबंधित हैं इसलिए यह दो पक्षों के बीच का विवादित मामला क़रार पता है जबकि तलाक़ का मामला खालिस मुसलमानों से जुड़ा हुआ पब्लिक रिट का मामला है। इससे हिन्दू या किसी और पक्ष का कोई लेना देना नहीं और न ही उन पर इसका कोई प्रभाव पड़ता है। कपिल सिब्बल का ब्यान दुर्भाग्यपूर्ण है और मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड को इस पर स्पष्टीकरण देते हुए फौरी तौर पर कपिल सिब्बल को हटा कर दूसरा वकील करना चाहिए।</div>
<div style="text-align: justify;">
रही बात तलाक़ के मुसलमानों का मज़हबी मामला होने की तो इसमें कोई शक की गुंजाइश ही नहीं है। क्योंकि निकाह और तलाक़ पर अमल ही वही करते हैं जो इस्लाम धर्म को मानते हैं। जो धर्म को ही नहीं मानेगा वो धर्म के अनुसार निकाह और तलाक़ ही क्यों करेगा, ऐसे लोगों के लिए तो लिव-इन और कोर्ट मैरिज का दरवाज़ा खुला हुआ है। तो आखिर अदालत को इतनी सी बात क्यों नहीं समझ आती और वह क्यों मुसलमानों के निजी धार्मिक मामलों में हस्तक्षेप करने के दर पे है !</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-16357787215448005402017-05-01T23:04:00.003-07:002017-05-01T23:18:49.122-07:00टर्की पर वामपंथियों के आरोप और उनका जवाब <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
1- टर्की दाइश का सहयोगी है। </div>
<div style="text-align: justify;">
इस आरोप का उनके पास कोई सबूत नहीं है। अलबत्ता टर्की द्वारा दाइश पर बेशुमार हमलों के पर्याप्त सबूत मौजूद हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
2- विद्द्रोहियों और गोलान समर्थकों के विरुद्ध कार्रवाई।</div>
<div style="text-align: justify;">
अब आप ही बताएं कि भला दुनिया में ऐसा भी कोई देश है जो अपने विद्द्रोहियों को सम्मानित करता हो ?</div>
<div style="text-align: justify;">
3- टर्की के बारे उनका ये कहना कि वो यूरोप का मरीज़ देश है।</div>
<div style="text-align: justify;">
दरअसल टर्की में जब से इस्लाम फैला है तभी से यूरोप के ईसाईयों और बाद में सेक्युलरिस्टों द्वारा उसकी छवि ख़राब करने के लिए ऐसा आधारहीन प्रोपेगंडा किया जाता रहा है। उसका एकमात्र कारण टर्की का मुस्लिम बाहुल्य होना और यूरोप का इस्लाम विरोधी होना है। इसके इलावा जब जब टर्की का झुकाव इस्लाम की तरफ बढ़ा है तब तब टर्की की छवि ख़राब करने की मुहिम में तेज़ी आई है, जैसे अभी वो अभियान तेज़ी से चल रहा है।</div>
<div style="text-align: justify;">
4- टर्की का पाकिस्तान की तरफ झुकाव।</div>
<div style="text-align: justify;">
रही बात पाकिस्तान की तरफ टर्की के झुकाव की तो उसके कई कारण हैं, टर्की इस समय मुस्लिम देशों के एक कोआपरेटिव संघठन (OIC) एक मज़बूत सदस्य है जिसका मेंबर पाकिस्तान भी है। निस्संदेह एक कारण दोनों देशों में इस्लाम धर्म और कल्चर का कॉमन होना भी है और इसमें कोई बुराई नहीं, ये नेचुरल बात है। अलबत्ता पाकिस्तान की तरफ झुकाव का कारण टर्की का भारत विरोधी होना क़तई नहीं है।</div>
<div style="text-align: justify;">
5- एरदोगान ऑटोक्रेट (डिक्टेटर) है। </div>
<div style="text-align: justify;">
हैरत की बात है कि फिदेल कास्त्रो जैसे ऑटोक्रेट इन विरोधियों लिए हीरो हैं जबकि टर्की का एलेक्टेड राष्ट्रीपति एरदोगान डिक्टेटर हो गया! चलो आप की बात मान लेते हैं लेकिन अगर एरदोगान ऑटोक्रेट है तो फिर लेनिन, स्टालिन, फिदेल कास्त्रो, ह्यूगो शावेज़, पुतिन, माउ, या जिनपिंग क्या हैं ? ये सब लोग भी तो ऑटोक्रेट थे और हैं, फिर इनका विरोध क्यों नहीं ?</div>
<div style="text-align: justify;">
6- टर्की का इस्लामीकरण करना। </div>
<div style="text-align: justify;">
एरदोगान ने मुस्लिम महिलाओं और पुरुषों को हिजाब और दाढ़ी के साथ शिक्षा और नौकरी का अधिकार दिलाया जैसा कि वहां इससे पहले हिजाब और दाढ़ी पर पाबन्दी थी। एरदोगान ने उस भेदभाव को ख़तम किया। दरअसल टर्की के विरोध का मुख्य कारण विरोधियों की इस्लाम विरोधी मानसिकता है। </div>
<div style="text-align: justify;">
इसका मतलब है कि यह विरोध एरदोगान और टर्की का नहीं बल्कि वास्तव में यह इस्लाम का विरोध है। जिन वामपंथियों के पास सही और गलत, सच और झूट का कोई पैमाना न हो बल्कि धर्म से जुडी हर बात का अंध विरोध करना ही उनकी वे ऑफ़ लाइफ हो, ऐसे अंध विरोध से इस्लाम और मुसलमानों पर कोई फ़र्क़ नहीं पड़ने वाला है।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-59007737017947170822017-04-26T04:39:00.003-07:002017-04-26T22:51:17.535-07:00پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپگنڈا مہم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: left;">
حکومت ہند اور اقوام عالم کو روہنگیا بحران کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے</h3>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً سوا لاکھ روہنگیا پناہ گزیں موجود ہیں، جن کے ناگفتہ بہ حالات و مسائل پر وقتاً فوقتاً خبریں اور تحریریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ فی الوقت وطن عزیز میں ایک خاص طبقے کے خلاف جس طرح ڈرامائی انداز میں نفرت آمیز مہم اور پُر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، اس کےنتیجے میں ملک میں موجود پناہ گزیں روہنگیا مسلمان بھی محفوظ نہیں رہے۔ حال ہی ایک واقعہ میں 14اپریل کو جموں کشمیر کے بھگوتی نگر میں روہنگیاکیمپ کو شرپسند عناصر نے آگ کے حوالے کردیا جس میںان کی10 میں 7جھگیاں جل کر خاکستر ہو گئیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، جموں میں گزشتہ سال نومبر سے شروع کی گئی ’روہنگیا بھگاؤ مہم ‘کے بعد سے اب تک پناہ گزینوں کی بستیوں میں آگ لگنے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں، جن میں پانچ روہنگیا مسلمان جاں بحق اور ان کی درجنوں جھونپڑیاں نذر آتش ہوچکی ہیں۔ایک طرف سے وطن عزیز میں پناہ گزیں ان رہنگیا مسلمانوں کی کسمپرسی کی حالت اتنی بدترین ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ا ن کی ایک بڑی تعداد بھیک مانگ کر گزر بسر کرنے کے لیے مجبور ہے، تو دوسری طرف ہجرت و پناہ گزینی کے اس عالم بے بسی میں نفرت آمیز و پُرتشدد مہم کے شعلے بھی چہار جانب سے گھیر لیے ہیں۔ ایسے میں ان کے سامنے حکومت ہند کے سامنے گڑگڑانے اور فریاد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ملک میں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار اور گوں نا گوں مسائل بھلا کچھ کم تھے جو ان کے خلاف باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت آن پڑ گئی ! جموں کی ’جموں چیمبر آف کامرس ‘ جیسی کئی شدت پسند اور تجارتی تنظیموںکی جانب سےان مظلوم و مقہور اور بے آسرا لوگوں کے خلاف چلائی گئی نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے کہ آج وہاں پر مقیم متاثرہ روہنگیا مسلمان اپنے کیمپوں اور جھونپڑیوں میں قید تنہائی اور بے بسی کے شکار ہوگئے ہیں ۔ ان کے خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے ، روزی روٹی کمانے ، حتیٰ کہ روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی اپنی جھونپڑیوں سے باہر نکلنے میں خوف کھاتے ہیں کہ بادل ناخواستہ کہیں کوئی جان کا دشمن بن کر ان پر ٹوٹ نہ پڑے اور اب تو وہ اپنی ان خانہ خراب جھونپڑیوں میں بھی محفوظ نہیں رہے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ان کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے حالات بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جموں چیمبر آف کامرس کے چیئرمین راکیش گپتا نے ایک پریس کانفرنس میں اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے علی الاعلان یہ تک کہہ دیا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو چن چن کر مار ڈالا جائے۔‘ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انھوں نے میڈیا پر بیان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا بہانہ تلاش کرلیا۔بہرحال اس وقت غیر انسانی پروپگنڈوں اور حیوانیت کا ایسا دور دورہ ہے کہ بدترین حالات کے شکار ، لاچار و بے بس روہنگیا کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف ملک کے ایک طبقےکی جانب سے چلائی جا رہی نفرت و حقارت بھری مہم کی ایک جھلک حال ہی میں پارلیمنٹ میں بھی دیکھنے کو ملی۔10اپریل کو لوک سبھا میں اس مسئلے پر بحث کے دوران حزب اقتدار نے روہنگیا مسلمانوں کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ وقفہ صفر کے دوران بی جے پی لیڈر نشی کانت دوبے نے ان کے خلاف پہلے سے چلائے جا رہے بے بنیاد پروپگنڈا یعنی بنگلہ دیشی ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمان پہلے بنگلہ دیش سے میانمار گئے اور وہاں سے اب ہندوستان آ رہے ہیں۔ دوبے نے بغیر کسی ثبوت و لیل کے الزامات کی جھڑی لگاتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمان لوگ جعلی نوٹوں کے کاروبار، انتہا پسندی، نکسل ازم وغیرہ میں ملوث ہیں ۔ انھوں نے یہ بے بنیاد دعویٰ بھی کرڈالا کہ کئی علاقوں میں تو روہنگیا مسلمانوں کی وجہ سے آبادی کا تناسب بھی بدل گیا ہے۔جب کہ ملک کے مختلف علاقوں میں بکھرے پڑے تمام روہنگیا مسلمانوں کی مجموعی تعداد خود مخالفین کے مطابق سوا لاکھ سے زیادہ نہیںہے۔ اب بھلا سوا لاکھ کی تعداد 125کروڑ آبادی والے ملک کا تناسب کیسے بگاڑ سکتی ہے؟ ویسےبھی وہ پناہ گزیں ہیں جوحالات ٹھیک ہوتے ہی اپنے وطن واپس چلے جائیں گے ۔ بی جے پی لیڈر نے اپنے ان بے بنیاد دعوؤں کی بنیاد پر مرکزی حکومت سے ایک کمیشن بنا کر روہنگیا مسلمانوں کی جانچ کرکے انہیں ملک سے باہر کرنے کا مطالبہ کیا۔اس معاملے پر اپوزیشن نے قابل ستائش موقف اختیار کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی قابل رحم حالت کے پیش نظر مرکزی حکومت سے ملک میں پناہ گزین قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔ کانگریس لیڈر اور سابق وزیر مملکت ششی تھرور نے کہا کہ پناہ دینے کےمعاملے میں ہندوستان کی روایت اور تاریخ بہت ہی مثالی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا کے خلاف ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے حزب اقتدار اور مرکزی حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ بے بنیاد الزام لگانے کی بجائے ملک میں ایک پناہ گزین قانون بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ افواہوں اور پریس کی رپورٹ کی بنیاد پر پروپیگنڈہ مہم نہ چلائی جا سکے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس سے قبل 4اپریل کو ٹائمس آف انڈیا میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ مرکز کی مودی حکومت تقریباً 40ہزار پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار بھیج سکتی ہے۔اخبار نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت پچھلے پانچ سے سات سال کے دوران ملک میں آنے والے روہنگیا کی شناخت کرکے انھیں ڈپورٹ کرنے یعنی واپس بھیجنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے ۔یہ انتہائی تشویشناک بات ہے اور اگر مرکزی حکومت ان اطلاعات کے مطابق میانمار میں روہنگیا مخالف موجودہ حالات کی شدت کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں ڈپورٹ کرتی ہے تو اسے کسی بھی صورت میں درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا! ایسے میں میانمار کے حالات سدھرنے سے قبل روہنگیا مسلمانوں کو جبراً واپس بھیجنا در حقیقت انھیں جلتی بھٹّی میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرکزی حکومت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے موقف اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر حل کرے ، بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان و اطراف کے اقلیتوں کے مسئلے پر انسانی بنیادوں پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔دوسری جانب بین الاقوامی ادارہ اقوام متحدہ میں 24مارچ 2017کو روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر یورپی یونین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرار داد کومتفقہ طور پر منظور کیا گیا تھاجس کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل اور جنسی استحصال جیسے مظالم کی تفتیش کرنے اور حقائق تلاش کرنے کے لیے ایک آزاد مشن بھیجا جائے گا جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس قرار داد میں ظلم ڈھانے والوں کا بھرپور احتساب کرنے اور ان مظالم کا شکار بننے والوں کے ساتھ مکمل انصاف کرنے جیسے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے تھے ، ایسے میں اقوام متحدہ سے بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ دعوؤں سے آگے بڑھ کر روہنگیا بحران پر عملی اقدامات کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ان کے مسائل کو حل کرے اور قرب و جوار کے ممالک میں دربدر بھٹک رہے روہنگیا عوام کو ذلت و خواری کی زندگی سے نجات دلائے،اس کے لیے چاہے امن فورسز کی تعیناتی کرنی پڑے یا حکومت میانمار کے خلاف سخت سے سخت عالمی پابندیاں عائد کرنی پڑیں، ضرور کی جائیں اور تمام ممکنہ اقدامات پر غور کیا جائے ، کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کے حالات اب بلندبانگ دعوؤں اورقرار داد کی منظوری سے بڑھ کر عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ان سنگین حالات میں ملک کے مسلمانوں کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے ۔ یہاں پناہ گزیں روہنگیا کی خبر گیری کرنا اور بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کرنا ملک کے مسلمانوں کا ملی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ عام عوام کا انسانی فریضہ ہے۔ اگر ملک کے مسلمان برما اور دیگر ممالک میں ظلم و تشدد میں گھرے مسلمانوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو انھیں چاہیے کہ کم از کم اپنے یہاں آنے والے ان مہمانوں کی خبر گیری کرکے ایک عالمی امت ہونے کا احساس دلائیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ای میل : imamuddinalig@gmail.com</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-91559556910716017672017-04-26T02:09:00.003-07:002018-04-26T07:13:04.485-07:00नारीवादी आन्दोलन नारी शोषण और स्त्रियों के दमन का आन्दोलन <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: justify;">
"समानता का मतलब यह नहीं है कि महिला और पुरुष का कार्यक्षेत्र आवश्यक रूप से एक ही हो, दोनों एक ही जैसे काम करें, दोनों पर जीवन के सभी क्षेत्रों की ज़िम्मेदारियाँ समान रूप से लाद दी जाएं। इस मामले में प्रकृति ने दोनों पर बराबर बोझ नहीं डाला है। मानव नस्ल को जारी रखने की सेवा में बीज डालने के सिवा और कोई काम पुरुष के सुपुर्द नहीं किया गया है। इसके बाद वह बिल्कुल स्वतंत्र है, जीवन के जिस क्षेत्र में चाहे काम करे। उसके विपरीत मानव जाति की सेवा का सारा बोझ स्त्री पर डाल दिया गया है। इसके लिए गर्भावस्था और उसके बाद पूरा एक साल सख़्तियां झेलते बीतता है, जिस दौरान वास्तव में वह आधा मुर्दा होती है। उसके लिए स्तनपान के पूरे दो साल ऐसे गुजरते हैं कि उस पर रात की नींद और दिन का सुकून हराम हो जाता है। वह अपने खून से मानवता की खेती को सींचती है। इस पर बच्चे की प्रारंभिक परवरिश के कई साल इस मेहनत व परिश्रम से गुज़रते हैं कि वे अपना आराम, सुकून, अपनी खुशी और अपनी इच्छाओं को नई नस्ल पर कुर्बान कर देती है। जब हाल यह है तो न्याय का तकाजा क्या है? क्या न्याय यही है कि महिला से उसकी प्राकृतिक एवं स्वाभाविक जिम्मेदारियों का निर्वाहन भी कराया जाए जिनमें पुरुष उसका साझेदार नहीं है और फिर उसके साथ साथ उसपर घर, समाज, देश और सभ्यता एवं संस्कृति की जिम्मेदारियों का बोझ भी पुरुष के बराबर लाद दिया जाए जिन से निपटने के लिए पुरुषों को प्रकृति की सभी ज़िम्मेदारियों से मुक्त रखा गया है? क्या स्त्री से यह कहा जाए कि वह वो सारी मुसीबतें भी उठाए जो प्रकृति ने उसपर डाली हैं और फिर हमारे साथ आकर रोजी-रोटी कमाने की मेहनत और संघर्ष भी करे! राजनीति, न्यायालय, उद्योग और कला, बाज़ार, व्यापार, कृषि और शांति एवं देश की रक्षा के सेवाओं में भी बराबर का हिस्सा ले! हमारी सोसाइटी में आकर दिल भी बहलाए और विलासिता, आनंद और सुख के सामान भी प्रदान करे! यह न्याय नहीं अत्याचार है और समानता नहीं स्पष्ट असमानता है। '' </div>
<div style="text-align: justify;">
(पर्दा, मौलाना सैयद अबुल आला मौदूदी र.)</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-10361744307836769822017-04-26T00:46:00.000-07:002017-04-26T02:06:28.700-07:00آزادیٔ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کے پُر فریب نعرے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مساوات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عورت اور مرد دائرۂ کار لازمی طور پر ایک ہی ہو۔ دونوں ایک ہی جیسے کام کریں۔ دونوں پر زندگی کے تمام شعبہ جات کی ذمہ داریاں یکساں طور پر عائد کر دی جائیں۔ اس معاملے میں فطرت نے دونوں پر مساوی بار نہیں ڈالا ہے۔ بقائے نوع انسان کی خدمت میں تخم ریزی کے سوا اور کوئی کام مرد کے سپرد نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد وہ بالکل آزاد ہے۔ زندگی کے جس شعبہ میں چاہے کام کرے، بخلاف اس کے اس خدمت کا سارا بار عورت پر ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے لیے حمل اور مابعد حمل کا پورا ایک سال سختیاں جھیلتے ہوئے گزرتا ہے جس میں در حقیقت وہ نیم جان ہوتی ہے۔ اس کے لیے رضاعت کے پورے دو سال اس طرح گزرتے ہیں کہ اس پر رات کی نیند اور دن کی آسائش حرام ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کو سینچتی ہے۔ اس پر بچے کی ابتدائی پرورش کے کئی سال اس محنت و مشقت سے گزرتے ہیں کہ وہ اپنی راحت، اپنے لطف، اپنی خوشی اور اپنی خواہشات کو نسل نو پر قربان کردیتی ہے۔ جب حال یہ ہے تو عدل کا تقاضہ کیا ہے؟ کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجاآوری بھی کرائی جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے جن کو سنبھالنے کے لیے مرد کو فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟عورت سے یہ کہا جائے کہ وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کرے جو فطرت نے اس پر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آکر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھائے۔ سیاست، عدالت، صنعت و حرفت، تجارت و زراعت اور قیام امن و مدافعت وطن کے خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے! ہماری سوسائٹی میں آکر دل بھی بہلائے اور عیش و عشرت اور لطف و لذت کے سامان بھی فراہم کرے۔ یہ عدل نہیں ظلم ہے اور مساوات نہیں صریح عدم مساوات ہے۔‘‘ (پردہ ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-46418070046471049232017-04-20T23:47:00.001-07:002017-04-21T02:50:12.138-07:00हलाला की वास्तविकता <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: left;">
</div>
<div style="text-align: justify;">
असल मामला यह है कि नियम के तहत तलाक़ न दे कर, बल्कि तीन तलाक़ दे कर क़ानून का उल्लंघन करने वाले पुरुषों के लिए सज़ा के तौर पर यह तय किया गया था कि वह दोबारा अपनी पत्नी को नहीं पा सकते, क़ानून के साथ खेलवाड़ करने के लिए उसकी यही सजा निर्धारित की गयी थी। लेकिन अत्याचारी पुरुष प्रधान समाज ने इस सजा वाले क़ानून का भी तोड़ निकाल लिया और हलाला की ईजाद करते हुए अपनी सजा को महिलाओं की सजा में परिवर्तित कर दिया। मुसलमानों के दुसरे खलीफा हज़रत उमर (र.) ने इस फ़ित्ने और खुराफात "हलाला" को रोकने के लिए ही हलाला करने और कराने वालों के लिए क़त्ल की सजा निर्धारित की थी। हज़रत उमर (र.) ने एलान किया था कि "अल्लाह की क़सम मेरे पास हलाला करने वाला और कराने वाला लाया गया तो मैं दोनों को संगसार कर दूंगा।"</div>
<div style="text-align: justify;">
खुद प्रोफेट मोहम्मद (peace be upon him) ने भी हलाला करने और कराने वालों पर अल्लाह की लानत भेजी है। हदीस के शब्द यह हैं :</div>
<div style="text-align: justify;">
रसूलुल्लाह (स.) ने फ़रमाया कि "हलाला करने वाला और जिसके लिए हलाला किया जाए दोनों पर अल्लाह की लानत हो" </div>
<div style="text-align: justify;">
(नोट :इस लानत में पीड़ित महिला को शामिल नहीं किया गया है जिससे साबित होता है नबी (स.) ने माना कि इसमें महिला की कोई गलती नहीं, कोई दोष नहीं है बल्कि वह तो ज़ालिम पुरुष प्रधान समाज के सामने बेबस है) यह हदीस इतनी ऑथेंटिक है और कई बड़े बड़े सहाबा (र.) ने इसकी रिवायत की है कि इसमें शक की कोई गुंजाइश नहीं है। </div>
<div style="text-align: justify;">
दरअसल तीन तलाक़ देने वाले पुरषों के लिए एक सजा निर्धारित की गयी थी कि क़ानून का उल्लंघन करने के नतीजे में अब वो तुरंत अपनी पत्नी से दोबारा ब्याह नहीं कर सकते लेकिन खुराफाती लोगों ने इसे महिलाओं के लिए ही "हलाला" के रूप में एक अज़ाब बना दिया। </div>
<div style="text-align: justify;">
मेरी नज़र में सुनियोजित एवं प्रायोजित या इरादतन "हलाला" करना और कराना ज़िना (व्यभिचार) से भी भयंकर गुनाह है। और ऐसा करने वाले और कराने वाले इन पेशेवर ज़ानियों (रेपिस्टों) और ज़िना पर शरीयत को ढाल बनाने वालों को ढूंढ ढूंढ कर कर सख्त से सख्त सजा देनी चाहिए। (नोट : क़त्ल की सजा का तो पहले से ही प्रावधान है।)</div>
<div style="text-align: justify;">
वैसे तो मुस्लिम समाज में हलाला की घिनौनी बुराई न के बराबर है लेकिन जो भी थोड़े बहुत ऐसे केसेज़ होते हैं उनको भी रोकना और खत्म करना ज़रूरी है, बुराई किसी भी रूप में क्यों न हो उसको नकारना ज़रूरी है।</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-19913358162519237542017-04-15T23:49:00.000-07:002017-04-16T21:42:27.892-07:00گئوکشی کے خلاف منافرت آمیز مہم کو کاؤنٹر کرنے کی حکمت عملی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
سنگھ کے موجودہ اور سابقہ نظریات میں تضادات سے عوام کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div style="text-align: justify;">
ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے میڈیا کے سامنے کھلے عام جس طرح کا بیان دیا ہے وہ اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے فکر کرنے والوں کے لیے واقعی صدمہ انگیز اور پریشان کن بیان ہے۔ ٹی راجا سنگھ نے واضح طور پر لاقانونیت کی پشت پناہی کرتے ہوئے کہا کہ وہ گائے اور رام مندر کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے حق میں ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں جنونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'گائے سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ نہیں، یہاں تک کہ گائے سے بڑھ کر انسان کی جان بھی نہیں ہے۔ ایک طرف انتہاپسندی کے جنون میں ڈوبے ان جیسے لیڈران کے بیانات تو دوسری گئو رکشا کے نام پر قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے معاملوں میں پولیس اور انتظامیہ کی بے حسی اور جانبداری! </div>
<div style="text-align: justify;">
اب تک ملک بھر میں گئو رکشا کی آڑ میں تشدد کرکے 9 سے زائد بے قصور مسلمانوں کا قتل کیا جا چکا ہے لیکن ’قتل‘ جیسے سنگین جرم کے ان معاملوں میں پولیس انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قصوروار کے خلاف قابل ذکر اور مناسب کارروائی نہیں کی گئی۔ اس طرح کے معاملات میں اکثر دیکھا گیا کہ قانون شکنی کرنے اور وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرنے والے ان غیر سماجی عناصر پر پولیس اکثر بیشتر معمولی نوعیت کے دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت جلدی چھوٹ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج تک کئی بے قصور افراد کی جانیں ضائع ہونے کے باجود کسی کو کوئی قابل ذکر سزا بھی نہیں ہوئی۔ یہ حقائق اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ گئو رکشا کی چادر اوڑھے ان جرائم پیشہ افراد کو متعدد انتہا پسند لیڈاران اور پولیس انتظامیہ سمیت انتہائی اعلیٰ سطح سے اور بڑے پیمانے پر پشت پناہی حاصل ہے۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
حالیہ عرصے میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر گئو کشی کے خلاف بڑے پیمانے پر متنازع اور نفرت آمیز مہم چلائی گئی جس سے مسلمانوں سے نفرت اور گائے کے تقدس کے حق میں اکثریتی عوام کی بڑے پیمانے پر ذہن سازی ہوئی۔ اسی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ آج گئو کشی کے الزام میں کسی بے قصور کے قتل پر نہ تو پولیس اور حکام پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ اکثریتی فرقے کے کانوں پر جوں رینگتی ہے۔ مسلمانوں سے منافرت کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اکثریتی طبقے کے لوگ عوامی مقامات اور سوشل میڈیا پر ایسے واقعات پر کھلے عام تاثر دیتے نظرآتے ہیں کہ’ ایسا کیا ہوا بس ایک ہی مسلمان تو مراہے، انہیں ٹھیک کرنا ضروری ہے۔‘</div>
<div style="text-align: justify;">
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکثریتی عوام کے ذہن اور مزاج کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر جو کھیل کھیلا گیا ہے اس کی اصلاح کیسے کی جا ئے؟ موجودہ حالات اور وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو انتہا پسندی کے اس طوفان سے نکالنے کا طریقۂ کار اور حکمت عملی کیا ہو؟ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سربراہ شرد پوار نے حال ہی میں اپنے ایک بیان سے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک طریقۂ کار کی طرف اشارہ کیا۔ ممکن ہے کہ یہ طریقہ اس سنگین صورت حال سے نمٹنے میں کسی حد تک معاون ثابت ہو۔ در اصل شرد پوار نے گئو کشی پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایک بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز لیڈر اور ہندو مہاسبھا کے نیتا ساورکربھی بیف کھانے والوں کو قصوروار نہیں مانتے تھے۔ واضح رہے کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے حال ہی میں اپنے بیان میں لاقانونیت اور تشدد کو روکنے کے لیے ملک گیر سطح پر گئوکشی کے خلاف قانون سازی کی وکالت کی تھی۔ شرد پوار نے رد عمل میں کہا کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ساورکر کا ماننا تھا کہ گائے کی کوئی ضرورت نہ رہ جائے تو اسے کھانے سے کوئی قصور نہیں ہو سکتا۔ ساورکر نے مزید کہا تھا کہ گائے ایک نفع بخش جانور ہے لیکن جب اس کی افادیت ختم ہوجائے تو وہ کسانوں پر بوجھ نہیں بننی چاہیے اسی لیے اگر کسی نے گئوکشی کرکے اس کا گوشت کھایا تو میں اسے قصوروار نہیں مانتا۔ ساورکر نے اپنی کتاب ’’وگیان نشٹھ نبندھ‘‘ میں مزید لکھا ہے کہ’’گائے کی پوجا کرنا اور اسے انسان سے اوپر سمجھنا انسانیت کی توہین ہے۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
پہلی بار نہیں ہوا کہ گائے کے تعلق سے آر ایس ایس کے نظریہ ساز لیڈر ساورکر کے خیالات منظر عام پر آئے ہوں لیکن کسی بڑے لیڈر کی طرف سے ایسا بیان پہلی بار آیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل قدیم مذہبی کتابوں (وید وغیرہ) میں گئوکشی کے متعدد شواہد منظر عام پر لائے جا چکے ہیں، مزید یہ کہ آر ایس ایس کے بے شمار ممبران کے بیف کھانے اور خود آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے چیف کا عہدہ سنبھالنے سے پہلےگوشت خور ہونے کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے۔ اس سلسلے میں 10 دسمبر 2015 کو مشہور اخبارٹیلی گراف کے حوالے سے ڈی این اے میں شائع آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر منموہن ویدیا کا وہ بیان کافی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بیف کھانا بہت سی ریاستوں اور خاص طور پر آدی واسیوں کے کلچر کا حصہ رہا ہے اور ان کے یہاں بیف کھانا ایک عام سی بات ہے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ بیف کھانے والا بھی آر ایس ایس کا ممبر ہوسکتا ہے اور اس حوالے سے انھوں نے یہ دلیل دی تھی کہ صرف اروناچل پردیش میں بیف کھانے والے آر ایس ایس کے 3000 ممبران ہیں۔</div>
<div style="text-align: justify;">
اس سے قبل بھی آر ایس ایس لیڈران کے ایسے بیانات اور انکشافات سامنے آچکے ہیں جن سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے نزدیک گائے کو کسی بھی طرح کا مذہبی تقدس حاحل نہیں ہے۔ 8ا کتوبر 2015 کو ’دی اکنامک ٹائمس‘ میں آر ایس ایس پرچارک، مصنف اور کالم نگار دلیپ دیودھار کا وہ بیان بھی کافی دنوں تک سرخیوں میں رہا تھا جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ موہن بھاگوت بھی آر ایس ایس کے چیف بننے سے پہلےتک گوشت کھایا کرتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ آر ایس ایس کے زیادہ تر پرچارک گوشت خورہیں۔ اس انکشاف کا انجام یہ ہوا تھا کہ آ رایس ایس نواز اخبار ’’ترون بھارت‘‘ نے دلیپ دیودھار سے وہ کالم چھین لیا تھا جو وہ پچھلے 16 برسوں سے لکھ رہے تھے۔</div>
<div style="text-align: justify;">
در اصل ملک کے طول و عرض میں مختلف علاقوں میں گائے کے تعلق سے برادران وطن کے نظریات میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ملک کے بعض علاقوں میں گائے کو پوجا جاتا ہے تو بعض دیگر علاقوں میں اسی گائے کی بلی دی جاتی ہے۔مگر ہاں، ملک بھر میں گائے کو کھانےکا رواج زیادہ تر دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں میں ہے اور ان لوگوں کی تعداد گئو کشی کے خلاف نفرت آمیز مہم چلانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
ایسے متعدد شواہد و حقائق ہیں جو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے پھیلائے گئے بھرم اور نفرت کے ماحول کو قابو میں کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ان کے انتہاپسندانہ نظریات کو کاؤنٹر کرنے کی غرض سے ان حقائق کو عوامی بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں نہیں کی گئیں۔ ضرورت ہے کہ اکثریتی فرقے کے عوام سامنے ان حقائق و شواہد کو اجاگر کرکے شدت پسندوں کے اس زعم کو توڑا جائے کہ تشدد کو ہوا دے کر اور بعد ازاں تشدد کو روکنے کے نام پر من مانی قانون سازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آج گائے کے کاروبار سے جڑے ہندو طبقے کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ نشانے پر بھلے ہی مسلمان ہوں لیکن اس پُر تشدد اور انتہاپسندانہ مہم سے اس کاروبار سے جڑے ہرذات اور مذہب کے کسانوں کا نقصان ہوگا، یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نفرت آمیز مہم سے ان غریب دلتوں ، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کا بڑا نقصان ہوگا جن کے لیے بیف غذائیت اور معیشت کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ فسطائی نظریات کی حامل تنظیموں نے گئو کشی کے خلاف نفرت آمیز مہم سے جہاں ایک طرف دلت اور پسماندہ لوگوں سے ان کی غذائیت اور معیشت کا ایک مضبوط ذریعہ چھین کر انھیں مزید پسماندگی میں دھکیلنے کا کام کیا ہے تو وہیں اس سے اندھی عقیدت فضا قائم کرکے، اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کی کمزور ذاتوں اور قبائلیوں پر اپنا تسلط اور مرکز و ریاستوں کے اقتدار پر اعلیٰ ذاتوں کے قبضے کو مزید مستحکم کیا ہے۔ ویسے بھی گائے پالنے کے پیشہ سے مسلمانوں کے بالمقابل برادران وطن زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں موضوع یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے کھاتا کون ہے بلکہ گائے اوراس قبیل کے جانوروں کو پالنے والے کسانوں کو مناسب معاوضہ اور رقم ملتی ہے یا نہیں، ان کی محنت مناسب اجر انھیں حاصل ہوتا ہے یا نہیں، اس پر بات ہونی چاہیے۔ ممکن ہے کہ اس حکمت عملی کو بڑے پیمانے پر اپنانے سے ’گئورکشا‘ کی پُر تشدد اور متنازع مہم سے جڑے لوگوں کو جن میں سے اکثریت کسانوں کے بچوں کی ہے، قانون ہاتھ میں لینے اور پُر تشدد حرکتوں سے باز رکھا جا سکے۔</div>
</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-24917525356266020972017-03-22T22:51:00.001-07:002017-03-22T23:52:33.336-07:00हाय रे अदालत की लाचारी !<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
बाबरी मस्जिद/राम जन्म भूमि विवाद में अगर सुप्रीम कोर्ट राम जन्म भूमि के पक्ष में फैसला देता है तो देश के मुसलमान तो स्वीकार कर लेंगे लेकिन पूरी दुनिया में थू थू होगी और अगर बाबरी मस्जिद के पक्ष में फैसला देता है तो बहुसंख्यक समुदाय अदालत की इज़्ज़त और उसकी संप्रभुता को पैरों तले रौंध देगा और सुप्रीम कोर्ट की प्रतिष्ठा दाव पर लग जाएगी। चौपाल लगाने के मश्वरे का मतलब समझ रहे हैं न आप ! </div>
<div style="text-align: justify;">
एक तरफ एक पूरा समुदाय बार बार कह रहा है कि हम अदालत के फैसले का सम्मान करेंगे चाहे वो जो भी हो, दूसरी तरफ दूसरा पक्ष खुले आम कह रहा है कि हम केवल इसी सूरत में फैसले को स्वीकार करेंगे जब वो हमारे पक्ष में होगा, अब आप ही बताएं कि बेचारी अदालत किस किस पर अवमानना का केस दायर करे ? आप चीफ जस्टिस के चौपाल और खाप पंचायत वाले मश्वरे की मजबूरी को समझए। फिलहाल तो क़ानून व्यवस्था और अदालत की इस लाचारी पर तरस आने के साथ साथ उसकी संप्रभुता जैसी बातों पर हंसी भी आ रही है!<br />
इतिहास लिखेगा कि जो अदालत अक्सर क़ानून से बालातर खाप पंचायतों के फैसलों का खंडन करती थी वो एक ऐसे बहुचर्चित मामले में खुद सबूत और तथ्यों से बालातर हो कर चौपाल और खाप पंचायत की वकालत करने लगी जिसमें एक पूरे समुदाय के साथ घोर अत्याचार किया गया और जिसमें लोगों को अदालत से न्याय की सब से ज़्यादा उममीद थी। </div>
<div style="text-align: justify;">
चौपाल और पंचायत की आड़ लेने के बजाए अदालत सीधा सीधा फैसला दे। अगरचे कि चौपाल वाले मश्वरे से हमें अंदाज़ा हो गया है कि फैसला क्या होगा लेकिन हम चाहते हैं कि दुनिया भी देखे आप की निष्पक्षता और क़ानून व्यवस्था की पारदर्शिता और हुज्जत पूरी हो जाए।<br />#Rip_SupremeCourt</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-63983028017668633122017-03-20T02:14:00.003-07:002017-03-20T23:09:00.354-07:00हम बच्चे हैं तो क्या हुआ ?<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<div style="text-align: center;">
(बच्चों के लिए)</div>
<div style="text-align: justify;">
हम बच्चे हैं तो क्या हुआ? हम बड़ों से कम नहीं! क्या हुआ जो हम ढेर सारी शरारतें और बदमाशियां करते हैं? क्या हुआ जो हम अपनी दुनिया में मगन रहते हैं? क्या हुआ जो हम अपने ख्यालों में जीते हैं? क्या हुआ जो हम छोटी छोटी चीजों और मामूली बातों पर झगड़ते हैं ?</div>
<div style="text-align: justify;">
बातों और चीजों पर क्या बड़े नहीं झगड़ते? झगड़ते तो बड़े भी हैं, यदि कुछ अंतर है तो बस इतना है कि आप बड़े थोड़ी बड़ी वस्तुओं और बड़ी बातों के लिए झगड़ते करते हैं, ये तो बस आकार और मात्रा का ही अंतर हुआ ना! बड़े लोग घर, जमीन और कार जैसी चीजों के लिए लड़ते एवं संघर्ष संघर्ष करते हैं वहीं हम बच्चे पतंग, खिलौनों और अपनी पसंद की मिठाई और भोजन के लिए, हमारा लक्ष्य छोटा और आप का लक्ष्य थोड़ा बड़ा हुआ तो क्या हुआ, लड़ते तो आप भी हैं ना, व्यवहार के मामले में हममें और आप में कहाँ कोई अंतर हुआ? बस प्राथमिकताएं ही तो बदली हैं, कल्पना में तो आप भी जीते हैं और हम भी जीते हैं, बस बड़ों की कल्पना का दायरा ही तो बड़ा होता है ना! लेकिन हमारी कल्पना बड़ों की ब-निस्बत पवित्र और साफ़ सुथरी होती है। </div>
<div style="text-align: justify;">
हम खूब शरारतें और बदमझशियां करके जीवन का भरपूर आनंद लेते हैं, लेकिन बड़े इससे वंचित रहते हैं, वो केवल इसकी कल्पना भर कर सकते हैं। हम आपस में झगड़ते तो हैं लेकिन बड़ों की तरह रिश्ते ख़त्म नहीं करते, बड़ों की तरह रंजिश पाल कर उसे ढोते हैं, हमारी कट्टी बहुत थोड़े समय के लिए होती है हम जल्दी ही मान जाते हैं, बिल्कुल प्रकृति की तरह बिगड़ते और बनते हैं, हम बच्चे हैं तो क्या हम बड़ों से कम नहीं बल्कि बेहतर हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
अगर बड़ों को सही मायने में बड़ा बनना है तो पूंजी और स्टेटस को अपना लक्ष्य बनाने के बजाय वो अपने जीवन और अपने अस्तित्व के उद्देश्य को समझने का प्रयास करें, जीवन के सुख के लिए दौलत को लक्ष बनाने, अपने लक्ष्य के आकार बढ़ाने और उन्हीं में प्राथमिकताओं की अदला बदली करने के बजाय समाज और लोगों के जीवन को सुखद और शांतिपूर्ण बनाने को अपना लक्ष्य बनाएं, समाज में फैले जहर, लोगों की आपसी दुश्मनी और जीवन की रंजिशों को दूर करने को अपनी प्राथमिकता बनाएँ और अगर आप बड़े भी हमारी तरह जीवन का आनंद लेना चाहते हैं तो अपनी इस परेशान ज़िन्दगी और झूठे एवं बनाउटी व्यवहार को छोड़ कर अपने बचपन के प्राकृतिक जीवन एवं वृत्ति को पुनः अपनाएँ </div>
<div style="text-align: justify;">
<div style="text-align: justify;">
और इस दिशा में आप हम बच्चों से बहुत कुछ सीख सकते हैं क्योंकि आप को यह तो पता ही होगा कि बच्चे मासूम और प्रकृति की महान कृति होते हैं, हम बच्चे हैं तो क्या हुआ साहब, आप हम से बहुत कुछ सीख सकते हैं।</div>
<div class="text_exposed_show" style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; color: #1d2129; display: inline; font-family: Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; font-style: normal; font-variant-caps: normal; font-variant-ligatures: normal; font-weight: normal; letter-spacing: normal; orphans: 2; text-align: start; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 2; word-spacing: 0px;">
</div>
<div style="text-align: justify;">
माना कि हम बच्चे हैं, छोटे से पौदे की नर्म कोंपल की तरह बहुत नाज़ुक हैं लेकिन हमें मामूली सा बच्चा समझ कर नज़र अंदाज़ करने की भूल मत कीजिएगा, हम आप का, समाज का और इस देश का भविष्य हैं। याद रखिए कि अगर आप ने हमें कम आंकते हुए ठीक से हमारी देख भाल नहीं की और ये नंन्हे पौदे मुरझा गए तो आने वाले समय में आप का भविष्य अँधेरे और अधर में होगा और यह चमन रूपि देश वीरान हो जाएगा, ध्यान रखें कि अगर आप ने हमारी परवरिश ठीक से नहीं की और नतीजतन हम बिगड़ गए तो आप का भविष्य बिखर जाएगा, आप की ज़िन्दगी अकारत जायेगी, समाज का अमनो चैन खतरे में पड़ जाएगा और इस बाग़ रूपि देश में फूल व फल वाले पौदों की जगह कांटेदार पौदे उगेंगे, उस वक़्त हमें दोष मत दीजिएगा, इसके ज़िम्मेदार भी आप ही होंगे, हमें बनाओगे तो अपना भविष्य बनाओगे, हमें बिगाड़ोगे तो अपना भविष्य बिगाड़ोगे. इसी लिए तो कह रहा हूँ हम बच्चे हैं तो क्या हुआ....</div>
</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-23710470085309637232017-03-20T01:45:00.004-07:002017-04-09T23:41:13.812-07:00ہم بچے ہیں تو کیا <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">امام الدین علیگ</span></h4>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم بچے ہیں تو کیا ہوا؟ ہم بڑوں سے کم نہیں! کیا ہوا جو ہم ڈھیر ساری شرارتیں اور بدمعاشیاں کرتے ہیں ؟ کیا ہوا جو ہم اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ؟کیا ہوا جو ہم اپنے خیالوں میں جیتے ہیں؟ کیا ہوا جو ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں اور معمولی باتوں پر جھگڑتے ہیں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
باتوں اور چیزوں پر کیا بڑے نہیں جھگڑتے ؟ جھگڑتے تو ـآپ بڑے بھی ہیں ، اگر فرق ہے تو بس اتنا ہے کہ بڑے لوگ تھوڑی بڑی چیزوں اور بڑی باتوں کے لیے جھگڑتے ہیں ، یہ تو بس حجم اور سائز کا ہی فرق ہوا نا! بڑے لوگ گھر، زمین اور گاڑی جیسی چیزوں کے لیے لڑتے اور جہد و جہد کرتے ہیں تو وہیں ہم بچے پتنگ، کھلونوں اور اپنی پسند کے کھانوں اور مٹھائیوں کے لیے، ہمارا ہدف چھوٹا اور آپ کا ہدف تھوڑا بڑا ہوا تو کیا ہوا ، لڑتے تو آپ بھی ہیں نا، برتا ؤ کے معاملے میں ہم میں اور آپ کے میں فرق کہاں ہوا ، بس ترجیحات ہی تو بدلی ہیں، البتہ ہم آپس میں جھگڑتے ہیں تو جلد مان جاتے ہیں، بڑوں کی طرح رشتے ختم نہیں کرتے، بڑوں کی طرح رنجش پال کر اسے ڈھوتے ہیں ، ہماری کٹّی پل دو پل کے لیے ہوتی ہے اور ہم جلد ہی آپس میں دوست بن جاتے ہیں، ہم بالکل فطرت کی طرح بگڑتے اور بنتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تخیلات میں آپ بھی جیتے ہیں اور ہم بھی جیتے ہیں، بس بڑوں کے تصورات و تخیلات کا دائرہ ہی تو وسیع ہوتا ہے نا! البتہ ہمارے تصورات بڑوں کی بنسبت پاک اور صاف ستھری ہوتے ہیں۔ مانا کہ ہم خوب شرارتیں اور بدمعاشیاں کرتے ہیں لیکن زندگی کو بھرپور طریقے سے جیتے بھی ہم ہی ہیں، آپ تو محض اس کا تصور بھر کر سکتے ہیں۔ ہم بچے ہیں تو کیا ہوا ہم بڑوں سے کم نہیں بلکہ بہترہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اگر بڑوں کو صحیح معنوں میں بڑا بننا ہے تو سرمایے اور اسٹیٹس کو اپنا ہدف بنانے کے بجائے وہ اپنی زندگی اور اپنے وجود کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کریں، زندگی کی آسائش کے لیے متاع و سرمایے کو ہدف بنانے ، اپنے اہداف کی سائز بڑھانے اور ترجیحات کو بدلنے کے بجائے سماج اور لوگوں کی زندگیوں کو خوشگوار اور پُر امن بنانے کو اپنا مقصد بنائیں ، سماج میں پھیلے زہر ، لوگوں کے باہمی عناد اور زندگیوں کی رنجشوں کو دور کرنے کو اپنی ترجیحات بنائیں اور اگر آپ بڑے بھی ہماری طرح زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا چاہتے ہیں تو اپنی اس پریشان زندگی اور جھوٹے اور بناؤٹی برتاؤ کو چھوڑ کر اپنے بچپن کی پرانی فطرت اور جبلت پر واپس جائیںاور اس سمت میں آپ ہم بچوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کیوں کہ آپ کو یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ بچے معصوم اور فطرت کے عظیم شاہکار ہوتے ہیں ، ہم بچے ہیں تو کیا ہوا، آپ ہم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-42940782959786474732017-03-18T01:21:00.004-07:002018-09-12T09:07:53.047-07:00मुसलमानों से बेतुकी अपील <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
आज कल ऐसे बहुत से पोस्ट और लेख देखने को मिल रहे हैं जिनमें देश के मुसलमानों को सलाह दी जा रही है कि वो राजनीति करना या राजनीति की बातें करना छोड़ दें। ऐसे लोगों के अनुसार च्यूँकि मुसलमानों के बीजेपी-विरोध से बीजेपी और मज़बूत हो रही है इसलिए उन्हें राजनीति छोड़ कर इबादत-व-रियाज़त और रोज़ी-रोटी कमाने पर ध्यान देना चाहिए !</div>
<div style="text-align: justify;">
अब आप ही बताएं कि अगर कोई आप से कहे कि आप को देखकर मेरा बैल उत्तेजित हो जाता है (भड़क जाता है) इसलिए आप गांव छोड़ दें तो आप को कैसा लगेगा ? भला इससे भी बेतुकी बात हो सकती है क्या ? अरे भाई, मुसलमानों को बीजेपी के अंध विरोध से रोकने का हल यह थोड़ी है कि वो राजनीति ही छोड़ दें। ये तो देश की 15% आबादी से उनके लोकतांत्रिक अधिकार छीनने वाली बात हो गई। </div>
<div style="text-align: justify;">
मुसलमानों को बीजेपी के अंध विरोध से रोकने का सब से मुनासिब तरीक़ा यह हो सकता कि उन्हें अपनी सियासत और अपनी क़यादत की राजनीति के लिए तैयार कीजिए। दरअसल मुसलमानों के बीजेपी का अंध विरोधी होने का मुख्य कारण कांरेस, सपा, बसपा, तृणमूल और राजद जैसी पार्टियां हैं जिन्हों ने मुसलमानों का वोट पाने के लिए उन्हें बीजेपी का अंध विरोधी बना दिया। ऐसे में मुसलमानों का वोट लेकर उनका शोषण करने वाली पार्टियों का विरोध करने के लिए तैयार करते हुए मुसलमानों का ध्यान अपनी सियासत और अपनी क़यादत की तरफ मोड़ना होगा, इसी एक तरीके से उन्हें बीजेपी के अंध विरोध से रोका जा सकता है। रही बात जाएज़ विरोध की तो लोकतान्त्रिक और मानवीय मूल्यों के अनुसार हर गलत चीज़ का विरोध करना देश के हर नागरिक और दुनिया के हर इंसान का मूल कर्तव्य है, इससे मुसलमानों को रोकने के बजाए उल्टा अन्य लोगों को भी अपना यह कर्तव्य अदा करने के लिए तैयार करने की कोशिश करनी चाहिए।</div>
<div style="text-align: justify;">
<a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%80_%E0%A4%95%E0%A4%BC%E0%A4%AF%E0%A4%BE%E0%A4%A6%E0%A4%A4_%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%87_%E0%A4%B9%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900">#अपनी_क़यादत_अपने_हाथ</a> </div>
<div style="text-align: justify;">
<a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%B8%E0%A4%AC%E0%A4%95%E0%A5%80_%E0%A4%A4%E0%A4%B0%E0%A4%95%E0%A5%8D%E0%A4%95%E0%A5%80_%E0%A4%B8%E0%A4%AC%E0%A4%95%E0%A4%BE_%E0%A4%B8%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900">#सबकी_तरक्की_सबका_साथ</a></div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-63430629372991951292017-03-14T02:10:00.002-07:002017-03-14T02:16:36.022-07:00मुसलमानों के डर और आशंका की वास्तविकता <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग </span></h4>
<div style="text-align: justify;">
राजनीति के विषय में अधिकतर मुस्लिम भाइयों दिमाग में दो आशंकाएं (खदशे) पाई जाती हैं और यह दोनों आशंकाएं उनके दिमाग में कुंडली मार कर बैठी हुईं हैं। </div>
<div style="text-align: justify;">
पहली आशंका यह कि देश के 14-15% मुसलमान या फिर यूपी जैसे राज्य के 20-22% मुसलमान अपनी क़यादत खड़ी करके अकेले कुछ नहीं कर सकते, अकेले सत्ता में आना तो दूर बल्कि मज़बूत विपक्ष भी नहीं बन सकते। यह बात सच है कि मुसलमान ही नहीं बल्कि इस देश की कोई भी कम्युनिटी अकेले, केवल अपने बल पर राजनीति में कोई ख़ास मक़ाम नहीं हासिल कर सकती लेकिन सवाल यह है कि आप से यह कौन कह कह रहा है कि मुसलमान हमेशा अकेले ही राजनीति करें ? मगर हाँ, शुरुवात तो अकेले ही करनी होगी और इसके रिएक्शन में वक़्ती धुर्वीकरण भी हो सकता है, पर आप यक़ीन मानिए कि जब आप इस लायक़ हो जाएंगे कि अपनी क़यादत खड़ी कर लें तो आप सोशल इंजीनियरिंग करके अन्य कम्युनिटीज को अपने साथ मिलाना या अन्य पार्टियों के साथ गठबंधन करना भी सीख जाएंगे, जब आप की क़यादत के पास 14-15% बेस वोट होगा तो फिर आटोमेटिक आप दूसरी पार्टियों की ज़रूरत और मजबूरी बन जाएंगे और आगे चल कर 'किंग मेकर' की भूमिका से 'किंग' की भूमिका निभाने का अवसर भी आप को मिल सकता हैं। </div>
<div style="text-align: justify;">
मुसलमानों में व्याप्त दूसरी आशंका यह है कि अगर इस देश के मुसलमान अपनी पार्टी बनाते हैं तो उसकी प्रतिक्रिया में सभी हिन्दू भाई भी एकजुट हो जाएंगे और इस धुर्वीकरण से बीजेपी और मज़बूत हो जाएगी। पहली बात तो यह कि प्रतिक्रिया में वक़्ती तौर पर हिन्दू भाइयों का धुर्वीकरण होना तो संभव है लेकिन यह धुर्वीकरण लॉन्ग टर्म के लिए हो संभव नहीं है, इसके दो कारण हैं, पहली वजह यह कि देश की हर कम्युनिटी के पास अपना मज़बूत और स्थापित नेतृत्व है जो किसी भी हाल में हमेशा के लिए खुद को मारने नहीं देगा। संभव है कि वो वक़्ती तौर पर मुसलमानों को डराने या हराने के लिए अपना वोट बीजेपी को ट्रांसफर कर दें लेकिन जब बात उनके अपने राजनीतिक वजूद पर बन आएगी तो वो अपना सियासी वजूद बचाने के लिए कुछ भी करने को तैयार होंगे। </div>
<div style="text-align: justify;">
दूसरी बात यह कि हिंदुस्तान की कम्युनिटी का वजूद ही एक दुसरे के खिलाफ खड़ा हुआ है और उनके बीच इतना इख़्तेलाफ़ और इंतेशार हैं कि वो हमेशा के लिए एक साथ नहीं रह सकते। (تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتیٰ) इसलिए मुसलमानों को अपने दिमाग से इन आशंकाओं को खुरचन होगा और यह बात समझनी होगी कि अगर आपने अपना नेतृत्व खड़ा कर लिया तो आप के सामने हज़ार रास्ते खुलेंगे लेकिन शुरुवात तो बहरहाल अकेले ही करनी होगी। वैसे भी इस समय बीजेपी को जितना मज़बूत होना था हो चुकी है, इसलिए बीजेपी की चिंता छोड़ कर अब अपनी फ़िक्र करना शुरू कर दीजिए क्योंकि अब आप के पास बीजेपी को रोकने का बहाना भी नहीं बचा है।<br /><a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%80_%E0%A4%95%E0%A4%BC%E0%A4%AF%E0%A4%BE%E0%A4%A6%E0%A4%A4_%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%87_%E0%A4%B9%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900" style="background-color: #fce5cd; font-family: "Times New Roman", Times, FreeSerif, serif; font-size: 26.4px; text-decoration: none;">#अपनी_क़यादत_अपने_हाथ</a><span style="background-color: #fce5cd; font-family: "Times New Roman", Times, FreeSerif, serif; font-size: 26.4px;"> </span><a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%B8%E0%A4%AC%E0%A4%95%E0%A5%80_%E0%A4%A4%E0%A4%B0%E0%A4%95%E0%A5%8D%E0%A4%95%E0%A5%80_%E0%A4%B8%E0%A4%AC%E0%A4%95%E0%A4%BE_%E0%A4%B8%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900" style="background-color: #fce5cd; font-family: "Times New Roman", Times, FreeSerif, serif; font-size: 26.4px; text-decoration: none;">#सबकी_तरक्की_सबका_साथ</a></div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2566806019665489999.post-13308357235671866292017-03-13T04:05:00.000-07:002017-03-17T00:23:05.356-07:00मॉडर्न इंडिया के राजनीतिक अछूत बने मुसलमान<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="_1dwg _1w_m _2ph_" style="padding: 12px 12px 0px;">
<div class="_5pbx userContent" data-ft="{"tn":"K"}" id="js_wat" style="line-height: 1.38;">
<div class="text_exposed_root text_exposed" id="id_58c67c2d6cb823229362835" style="display: inline;">
<div style="font-size: 14px; margin-bottom: 6px;">
</div>
<h4 style="font-size: 14px; text-align: center;">
<span style="color: red;">इमामुद्दीन अलीग</span></h4>
<div style="text-align: justify;">
यूपी इलेक्शन के नतीजों से बीजेपी ने अब इस धरना को स्थापित कर दिया है कि जो पार्टी मुसलमानों के मुद्दे उठाएगी या जो पार्टी अधिक मुसलमानों को टिकेट देगी या फिर मुसलमान जिस पार्टी की तरफ जाएंगे, उस पार्टी का अपना बेस वोट बीजेपी की तरफ भाग जाएगा यानि कि मुसलमान इस देश में राजनीतिक अछूत क़रार पा चुके हैं।</div>
<div style="text-align: justify;">
इस स्थिति में आगे चल कर कोई पार्टी न तो ज़्यादा मुस्लिम कैंडिडेट को टिकेट देगी, न उलेमा से समर्थन मांगेगी और न ही मुसलमानों के मुद्दों को उठाएगी यहाँ तक कि अब उनके तथाकथित मुद्दों जैसे क़ब्रस्तान, उर्दू और मदरसा को भी स्पेस नहीं मिलेगा। ऐसे में मुसलमान क्या करें ?</div>
<div style="text-align: justify;">
इसका एकमात्र हल है अपनी सियासत और अपनी क़यादत खड़ी करें या फिर मुफ्त में बिना किसी वैल्यू के अपना वोट प्रसाद की तरह बांटते रहें और बिना किसी हैसियत के जीने की आदत डाल लें। तक़रीबन यही सूरते-हाल कुछ वक़्त पहले दलितों के सामने भी थी लेकिन उन्हों ने अपनी सियासत और अपनी क़यादत का विकल्प चुना था। आगे आप की मर्ज़ी, चाहें तो मुफ्त में प्रसाद की तरह अपना वोट बांटते रहें और अन्याय को झेलते रहें या फिर अपनी सियासत और अपनी क़यादत खड़ी करके अपनी प्रतिष्ठा और हिस्सेदारी को सुनिश्चित करें।</div>
<div style="text-align: justify;">
<a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%80_%E0%A4%95%E0%A4%BC%E0%A4%AF%E0%A4%BE%E0%A4%A6%E0%A4%A4_%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%87_%E0%A4%B9%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900"></a><a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%80_%E0%A4%95%E0%A4%BC%E0%A4%AF%E0%A4%BE%E0%A4%A6%E0%A4%A4_%E0%A4%85%E0%A4%AA%E0%A4%A8%E0%A5%87_%E0%A4%B9%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900">#अपनी_क़यादत_अपने_हाथ</a> <a href="https://www.facebook.com/hashtag/%E0%A4%B8%E0%A4%AC%E0%A4%95%E0%A5%80_%E0%A4%A4%E0%A4%B0%E0%A4%95%E0%A5%8D%E0%A4%95%E0%A5%80_%E0%A4%B8%E0%A4%AC%E0%A4%95%E0%A4%BE_%E0%A4%B8%E0%A4%BE%E0%A4%A5?source=feed_text&story_id=1844650725560900">#सबकी_तरक्की_सबका_साथ</a></div>
</div>
</div>
</div>
</div>
Badlav ki Dharahttp://www.blogger.com/profile/12912358981100568812noreply@blogger.com0